ملفوظات حکیم الامت جلد 24 - یونیکوڈ |
حضرتؒ نے فرمایا کہ حق تعالی نے ہر زمانے کی ضرورت کے مطابق رضا کار پیدا فرمائے ہیں دوسرے وقت میں وہ بیکار ہونے لگیں تو وہ بیکار نہیں ہوتے ۔ حضرت شاہ عبد الرحیم دہلوی والد ماجد حضرت شاہ ولی اللہ یہ دونوں حضرات حضرت نظام الدین الاولیاء کے مزار پر اکثر حاضر ہوتے تھے ۔ ایک مرتبہ شاہ عبد الرحیم صاحبؒ کو یہ خیال ہوا کہ میں تو یہاں کثرت سے حاضر ہوتا ہوں معلوم نہیں کہ حضرت نظام الدین الاولیاءؒ کو ہمارے آنے کی خبر بھی ہوتی ہے ۔ اس کے بعد ایک روز مزار پر تشریف لے گئے اور مزار کی طرف متوجہ ہوئے تو حضرت سلطان الاولیاء کی روحانیت کو متشکل موجود دیکھا کہ وہ یہ شعر نظامی کا پڑھ رہے ہیں ۔ ؎ مرا زندہ پندار چوں خویشتن من آیم بجان گر توائی بہ تن شاہ عبد الرحیم صاحبؒ موصوف میر زاہد کے شاگرد تھے زمانہ تعلیم میں ایک روز شیخ سعدیؒ کا ایک قطعہ پڑھتے ہوئے جا رہے تھے مگر تین مصرعے یاد تھے چوتھا یاد نہ آیا تھا کہ یکایک ایک بزرگ صورت آدمی سامنے آئے اور ان کا بھولا ہوا مصرعہ پڑھ دیا ۔ وہ یہ تھا ( علمے کہ رہ بحق نتماید جہالت ست ) اور آگے چل دئیے ۔ شاہ صاحبؒ نے دوڑ کر ان کا ہاتھ پکڑا اور پوچھا آپ کا اسم شریف ؟ تو فرمایا کہ مصلح الدین شیرازی ۔ حضرت شاہ عبدالرحیم صاحبؒ ایک مرتبہ حضرت سلطان نظام الدین اولیاء کے مزار پر مراقب تھے کہ حضرت الاولیاء کی روحانیت متشکل ہو کر سامنے آئی ۔ حضرت شاہ صاحبؒ نے پوچھا کہ سماع کے بارہ میں آپ کیا فرماتے ہیں ؟ فرمایا کہ آپ شعر کے بارہ میں کیا فرماتے ہیں ؟ شاہ صاحب نے عرض کیا کہ کلام حسنہ حسن و قبیحہ قبیح ۔ یعنی شعر ایک کلام ہے جو کلام اچھا ہے وہ اچھا ہی ہے اور جو برا ہے وہ برا ہی ہے پھر فرمایا کہ خوش آوازی کو آپ کیا سمجھتے ہیں ؟ شاہ صاحب نے فرمایا کہ یزید فی الخلق ما یشاء کی تفسیر بعض حضرات نے صوت حسن ( آواز خوش ) سے کی ہے پھر فرمایا کہ اگر یہ دونوں جمع ہو جائیں شاہ صاحب نے عرض کیا کہ نور علی نور یھدی اللہ