ملفوظات حکیم الامت جلد 24 - یونیکوڈ |
یعنی اگر تمھیں کسی جگہ اپنے کپڑے چوری ہو جانے کا خطرہ ہو تو رات کو نیند نہیں آتی لیکن جن کاموں میں جان کے ہلاکت میں پڑنے کا خطرہ ہو تو تمھیں ان کے ساتھ کیسے نیند آ جاتی ہے ۔ اسی مضمون کو ایک بزرگ نے عربی شعر میں فرمایا ۔ و کیف تنام العین و ھی قریرۃ ولم تدر فی ای المحلین تنزل یعنی انسان کی آںکھ ٹھنڈی ہو کر آرام کے ساتھ کیسے سو سکتی ہے جبکہ اس کو یہ خبر نہ ہو کہ دو مقام جنت و دوزخ میں سے کہاں اس کا ٹھکانا ہو گا ۔ بعض اوقات مہر بصورت قہر ہوتی ہے ارشاد فرمایا کہ حالی مرحوم کا ایک مصرع ہے ۔ مہربانی کرتے ہیں نا مہربانوں کی طرح بعض اوقات کسی انسان کو ایک تکلیف میں مبتلا کیا جاتا ہے اور وہ در حقیقت اس سے بڑی کسی تکلیف کا علاج ہوتا ہے یہ چونکہ حقیقت سے بے خبر ہے اس لئے شور مچاتا اور پریشان ہوتا ہے ۔ ایک آیت پر منطقی اشکال اور اس کا جواب ارشاد فرمایا قرآن کریم میں ہے ولو علم اللہ فیھم خیرا لا سمعھم ولو اسمعھم لتولوا وھم معرضون ۔ منطقی قاعدے سے یہ قیاس کی شکل اول ہے جسکا نتیجہ یہ نکلتا ہے ولو علم اللہ فیھم خیرا التولوا ۔ یعنی اللہ تعالی کو ان میں کوئی بھلائی معلوم ہوتی تو یہ منہ پھیر کر بھاگتے ۔ حالانکہ اہل علم جانتے ہیں کہ یہ نتیجہ کسی طرح صحیح نہیں ہو سکتا ۔ فرمایا کہ جواب اسکا یہ ہے کہ مشکل اول کا نتیجہ جب صحیح نکلتا ہے جب حد اوسط مکرر ہو یہاں مکرر نہیں ہے کیونکہ لفظ اسمعھم جو مکرر آیا ہے وہ در حقیقت مکرر نہیں ہے کیونکہ ان دونوں لفظوں کے معنی الگ الگ ہیں کیونکہ پہلے جملے میں اسمعھم سے مراد وہ سماع ہے جو علم خیر کے ساتھ جمع ہوتا ہے یعنی سماع مقبول و موثر اور دوسرے جملے میں سماع سے وہ سماع مراد ہے جو علم خیر کیساتھ جمع نہیں ہوتا یعنی صرف کانوں سے سننا اور دل میں کوئی اثر نہ لینا ۔ اس لئے تقدیر عبارت دوسرے