ملفوظات حکیم الامت جلد 24 - یونیکوڈ |
|
میں آپ کو آپ کی رائے سے نہیں روکتا کہ مسئلہ اجتہادی ہے مگر ایک جگہ رہ کر اختلاف کرنا مناسب نہیں اس لئے اب مصلحت یہ ہے کہ آپ اپنے وطن چلے جائیں اور جو تصنیف کا کام آپ یہاں کر رہے وہاں جا کر کریں اور یہی تنخواہ جو آپ کو یہاں مل رہی ہے وہاں پہنچتی رہے گی ۔ پھر آپ کھل کر خلافت و کانگرس کی موافقت میں فتوی دیں اور تقریریں کریں مجھے کوئی گرانی نہیں ہو گی ۔ پھر جب یہ تحریک یکسو ہو جاوے تو پھر یہاں آ جائیے ۔ حضرتؒ نے فرمایا مگر خدا کے بندے نے کسی چیز کو نہ مانا مولوی صاحب بہت مدعی تقوی تھے حیدر آباد وغیرہ ریاستوں سے جو وظائف علماء یا مدارس کو ملتے تھے ان سب کو حرام کہتے تھے وجہ یہ تھی کہ اسکا تقوی صرف کتابی تھا ۔ کسی بزرگ کی صحبت میں اصلاح نفس کے قصد سے رہے نہیں تھے ۔ اور محض کتابوں اور مطالعہ پر اعتماد کرنے والے عموما ایسی بلاؤں میں مبتلا ہو جاتے ہیں ۔ انعام اور استدراج میں فرق بعض فساق فجار بلکہ کفار کو بھی دنیا میں بہت نعقیں مال و دولت حکومت و ثروت اللہ تعالی کی طرف سے دے دی جاتی ہے جو ان کے لئے انجام کار اور زیادہ غفلت اور سر کشی کا سبب بن کر آخرت کا عذاب شدید بن جاتی ہے یہ ظاہری نعمت در حقیقت سزا ہوتی ہے اس کو قرآن و حدیث کی اسطلاح میں استدراج کہا جاتا ہے ۔ حضرتؒ نے ایک روز ان نعمتوں کا ذکر فرمایا جو حق تعالی نے آپ کو عطا فرمائی تھیں پھر فرمایا کہ ڈر لگتا ہے کہ کہیں یہ استدراج نہ ہو ۔ پھر فرمایا مگر ایک بات سے امید ہوتی ہے کہ استدراج نہیں ۔ وہ یہ کہ مجھے استدراج کی فکر اور خوف لگا رہتا ہے جس شخص کی نعمتیں اللہ کی طرف سے بطور استدراج ہوتی ہیں اس کو یہ فکر ہی کبھی نہیں ہوتی بلکہ جوں جوں نعمت زیادہ ہوتی جاتی ہے اس کی غفلت اور بڑھتی جاتی ہے ۔ ایک لطیفہ حضرت کے ماموں کا نام امداد علی تھا درویش صفت آدمی تھے مگر کچھ بدعات میں مبتلا اس