ملفوظات حکیم الامت جلد 24 - یونیکوڈ |
|
آ تے ہیں ۔ اسی طرح ایک تو وہ جاہل ہے جو کسی چیز کی حقیقت سے واقف ہی نہیں ۔ اس سے کوئی سوال کیا جائے تو وہ جواب اور گفتگو سے حقیقۃ عاجز ہوتا ہے دوسرا وہ عارف کامل ہے جو سب چیزوں سے اتنا واقف ہے کہ نظری چیزیں بھی اسے بد یہی معلوم ہوتی ہیں وہ بھی زیادہ لمبی گفتگو اور بڑی تقریر سے عاجز ہوتا ہے یہی وہ عجز ہے ۔ جس کو حدیث میں جزو ایمان قرار دیا ہے ۔ دین کے معاملے میں ہر شخص کی خود رائی عجیب ہے فرمایا کہ دنیا کے تمام فنون اور سب شعبہائے زندگی میں جو شخص کسی خاص فن سے واقف نہیں ہوتا اس کو یہ کہنے میں کوئی وکاوٹ نہیں ہوتی کہ میں اس فن کو نہیں جانتا ۔ ایک بڑے ماہر انجینئیر سے آپ آنکھ کی تکلیف کا علاج پوچھیں تو بے ساختہ کہہ دے گا کہ میں ڈاکٹر نہیں ۔ کسی ڈاکٹر سے انجینئیری کا مسئلہ پوچھیں تو وہ کہے گا کہ میں انجینئیر نہیں ۔ مگر دین کو ایسا لا وارث سمجھ لیا گیا ہے کہ ہر شخص اس میں اپنی رائے ٹھونسنے کی فکر میں ہے ۔ وہاں یہ نہیں کہا جاتا کہ میں عالم نہیں ۔ سہارنپور کے ایک ڈپٹی مجسٹریٹ تھانہ بھون حاضر ہوئے ۔ ان کے ذہن پر یہ سوار تھا کہ دنیا میں سود خواری کے بغیر ترقی نہیں ہو سکتی اس لئے کسی طرح اسے حلال کیا جائے ۔ حضرتؒ نے فرمایا کہ بنی امیہ کے دور میں مسلمانوں کو ترقی حاصل ہوئی تھی یا نہیں ۔ اقرار کیا کہ بڑی ترقی ہوئی ۔ حضرتؒ نے پوچھا کہ کیا انہوں نے سودی کاروبار کیا تھا یا سود کو حلال کیا تھا ۔ تو کوئی جواب نہیں تھا ۔ حضرتؒ نے فرمایا کہ اس سے یہ تو معلوم ہو گیا کہ ترقی سود پر موقوف نہیں پھر انہوں نے ایک آیت کے متعلق کچھ سوال کیا اور یہ بھی عرض کیا کہ فلاں صاحب نے اس کی تفسیر اس طرح لکھی ہے ۔ وہ صاحب نرے ایک اردو ادیب تھے عالم نہیں تھے ۔ حضرتؒ نے فرمایا کہ آپ جس قانون پر عدالت میں فیصلے کرتے ہیں وہ مجھے دے دیجئے میں اس کی ایک شرح لکھوں اور آپ میری شرح کے مطابق عدالتی فیصلے نافذ کریں اور حکومت سے مواخذہ ہو تو آپ یہ کہہ دیجئے کہ اشرف علی نے اس قانون کی یہی شرح کی ہے پھر دیکھئے کہ حکومت کی طرف سے آپ کو کیسے کیسے خطاب ملتے ہیں ۔ بزرگوں کے تبرکات کا اثر