ملفوظات حکیم الامت جلد 24 - یونیکوڈ |
|
ایک آیت تفسیر اور تحقیق قرآن کریم میں ہے ۔ و ان تعدوا نعمۃ اللہ لا تحصوھا ۔ یعنی ۔ اگر تم اللہ تعالی کی نعمتوں کو شمار کرنے لگو تو شمار نہیں کر سکتے ۔ اس پر ایک شبہ ہو سکتا ہے کہ بعض غریب ملفس آدمی ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے پاس گنی چنی چیزیں ہی ہوتی ہیں جو شمار میں آ سکتی ہیں تو ان کے حق میں لا تحصوھا کا حکم کیسے صحیح ہو گا اس کا جواب تو کھلا ہوا ہے کہ ہر آفت سے محطوظ رہنا بھی تو ایک مستقل نعمت ہے اور آفتوں اور تکلیفوں کا احصاء و شمار کوئی نہیں کر سکتا اس لئے غریب سے غریب انسان پر اللہ کی نعمتیں اتنی ہیں کہ وہ شمار کرنا چاہے تو شمار نہیں کر سکتا ۔ اس کے بعد فرمایا کہ اس آیت کی ایک دوسری تفسیر بھی دل میں آتی ہے وہ یہ کہ لفظ احصاء کے معنی جیسے شمار کرنے کے معروف و مشہور ہیں اسی طرح ایک معنی احصاء کے پورا پورا استعمال کر لینے کے بھی آتے ہیں یعنی احصاء استعمالا ۔ اس معنی کے اعتبار سے آیت کا مفہوم یہ ہو گا کہ ہر انسان کو اللہ تعالی نے جتنی نعمتیں دی ہوئی ہیں وہ ان سب کو بیک وقت استعمال بھی نہیں کر سکتا بلکہ کچھ نہ کچھ نعمتیں اس کے استعمال سے فاضل رہتی ہیں ۔ خود انسان کے وجود میں جو نعمتیں عطا کی گئی ہیں وہ اس کی ضرورت سے کچھ زائد رہ گئی ہیں ۔ اللہ تعالی نے آنکھیں دو عطا فرمائیں ۔ حالانکہ دیکھنے کا کام ایک آنکھ سے بھی چل سکتا ہے ۔ کان دو دئیے اور کام ایک سے بھی چل سکتا ہے ہاتھ پاؤں دوہرے عطا فرمائے جن میں سے انسان ہر وقت دونوں کو استعمال نہیں کرتا ۔ سردی کا سامان گرمی میں اور گرمی کا سامان سردی میں مشغول کار نہیں ہوتا اس لئے ہر غریب سے غریب انسان پر یہ بات صادق ہے کہ وہ اللہ تعالی کی دی ہوئی نعمتوں کو پورا پورا استعمال بھی نہیں کر سکتا ۔ آیت کی یہ تفسیر خیال میں گزرا کرتی تھی مگر کوئی دلیل نہ ہونے کی وجہ سے ذکر نہ کرتا تھا ۔ آج الحمد اللہ اس کی دلیل ایک حدیث سے سمجھ میں آ گئی کہ اسماء اللہ الحسنی کے