ملفوظات حکیم الامت جلد 24 - یونیکوڈ |
ان بزرگوں کے ساتھ کیا تھا جس کو وہ افضل سمجھتے ہوں وہ افضل اور جس کو مفضول سمجھتے ہوں وہ مفضول ہے ۔ اسی بناء پر ایک مرتبہ حضرت شاہ عبدالعزیز اور شاہ اسماعیل شہیدؒ کے درمیان تفاضل میں گفتگو کے وقت ہمارے بعض اکابر نے فرمایا کہ ہم نے بزرگوں کو یہ دیکھا کہ وہ بہ نسبت حضرت شاہ اسمعیلؒ کے حضرت عبدالعزیزؒ کی عظمت زیادہ کرتے تھے ۔ ایک شاعرانہ لطیفہ ایک صاحب نے اپنے خط میں حضرتؒ سے چند فرمائشیں لکھیں اور اس کے ساتھ یہ شعر لکھا ۔ عاشق کے دل کو توڑ و لیکن ذرا سنبھل کر لا تقنطوا کو دیکھو یہ کس کی گفتگو ہے حضرتؒ نے فی البدیہہ جواب میں یہ شعر لکھ دیا ۔ عاجز کے دل کو توڑ و لیکن ذرا سنبھل کر لا تظلموا کو دیکھو یہ کس کی گفتگو ہے ۔ اور لکھا کہ میں ان فرمائشوں کے پورا کرنے پر قادر نہیں اور غیر قادر کو مجبور کرنا ظلم ہے ۔ حضرتؒ نہ شعر شاعری کو پسند کرتے تھے نہ کبھی یہ مشغلہ رہا لیکن فطری ذوق سلیم اور طبیعت کی سگفتگی سے جب کبھی کوئی شعر کہا تو بڑا چست اور وزنی ہوتا تھا ایک مرتبہ اپنا ایک شعر سلوک راہ حق کے متعلق فرمایا ؎ اندر ین رہ آںچہ می آید بدست حیرت اندر حیرت اندر حیرت است اسی ذوق لطیف کا ایک عجیب واقعہ یہ ہے کہ حضرت گنگوہیؒ کے مریدین میں ایک صاحب خورجہ کے رہنے والے محمد یوسف نامی تھے ۔ ذاکر شاغل صاحب حال مگر نیم مجذوب قسم کے آدمی تھے ایک مرتبہ تھانہ بھون پہنچے وہاں سے جلال آباد گئے جہاں ہمارے شیخ الشیوخ حضرت میاں جی نور محمد صاحبؒ کا قیام رہا تھا ۔ وفات کو عرصہ ہو چکا تھا ۔ وہاں جا کر یہ تحقیق کی کہ حضرت میاں جی صاحبؒ کا کوئی دیکھنے والا اب موجود ہے یا نہیں ۔ معلوم ہوا کہ ایک بڈھا بنیا ہندو ہے ۔ اس کے پاس پہنچے پوچھا کہ تم نے حضرت میاں جی صاحبؒ کو دیکھا ہے اس نے کہا ہاں دیکھا ہی نہیں ان کے مکتب میں پڑھا بھی ہوں ۔ محمد یوسفؒ صاحب خور جوی نے کہا کہ جب تم نے ان سے پڑھا ہے تو کبھی