ملفوظات حکیم الامت جلد 24 - یونیکوڈ |
ہو جاؤ میں راضی ہو جاؤں گا ۔ بعض لوگوں نے ایسا کر بھی لیا اور میں واقعی ان سے راضی ہو گیا ۔ حب جاہ مقبولیت عند اللہ سے بہت بڑا مانع ہے حضرت گنگوہیؒ نے ایک شیخ اور مرید کی حکایت سنائی کہ مرید بہت عبادت و ریاضت کرتا تھا ۔ مگر کچھ اثر نہ ہوتا تھا ۔ شیخ نے بہت سے وظائف تبدیل کئے اور تدبیریں اختیار کیں لیکن اس کے باطنی حالات درست ہوتے ںظر نہ آئے ۔ پھر ایک تدبیر کی جو جاہ اور ظاہری عزت کے خلاف تھی وہ یہ کام نہ کر سکا اس وقت معلوم ہوا کہ یہ طالب جاہ تھا یہی طلب جاہ اس کے راستہ کا سنگ گراں بن گئی تھی ۔ بزرگان دین نے حب جاہ کے علاج کے لئے اپنے نفس کے خلاف بڑے بڑے مجاہدے کئے ہیں ۔ حضرتؒ نے فرمایا کہ جاہ کی تحصیل اس قدر کہ لوگوں کے ظلم سے بچ جائے جائز ہے مگر مقصود دینی نہیں اور اس درجہ سے زائد ہو تو دین کے لئے مضر ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ حدیث میں یہ دعا سکھائی گئی ہے اللھم اجعلنی فی عینی صغیرا و فی اعین الناس کبیرا یعنی یا اللہ مجھے میری نظروں میں حقیر اور لوگوں کی نظروں میں بڑا بنا دے تو یہ دعا طلب جاہ کی دعا ہے مگر حدیث میں صرف دعا پر اکتفا کیا گیا ہے اس کی تحصیل کے لئے کوئی تدبیر نہیں بتلائی گئی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جاہ دراصل محض خدا داد ہوتا ہے تد بیروں سے حاصل نہیں ہوتا ۔ حضرت گنگوہیؒ کی قسم حضرتؒ نے ایک مکتوب میں بحلف یہ لکھا ہے کہ میں کچھ نہیں اس پر بعض علماء کو یہ شبہ ہو گیا کہ یہ حلف کیسے درست ہوا ۔ بات یہ ہے کہ حضرتؒ نے کمالات متوقعہ کے اعتبار سے حلف فرمایا اور ہم آپ کو کمال واقعہ کے اعتبار سے بزرگ سمجھتے ہیں مگر حضرتؒ کے سامنے چونکہ کمالات متوقعہ مطلوبہ تھے جن کا درجہ بہت بلند ہے ۔ ان کے بالمقابل کمالات واقعہ حاصلہ کوئی حیثیت نہیں رکھتے تھے ۔