ملفوظات حکیم الامت جلد 24 - یونیکوڈ |
اس کی شرعا مالک نہیں ہوتی ۔ اگر کچھ بچ جائے تو وہ شوہر کی ہی ملکیت ہوتی ہے بجز اس کے کہ یہ تصریح کر کے اس کے سپرد کرے کہ یہ تمھاری ملکیت ہے اس لئے گھر کے خرچ کے لئے جو رقم اس کو دی گئی ہے وہ اس کو اپنی ضروریات سے زائد کسی کام میں خرچ کرنے کی مجاز نہیں ۔ مثلا وہ اپنے کسی حاجت مند عزیز کی یا اور کسی مسکین کی مدد کرنا چاہے تو گھر کے خرچ کے لئے دی ہوئی رقم سے خرچ کرنے کا اختیار نہیں ۔ اس لئے مصلحت اس میں ہے کہ بیوی کو نفقہ ضروریہ کے علاوہ بھی کچھ رقم مالک بنا کر دے دی جائے تا کہ وہ آزادی سے اس کو اپنی منشاء کے مطابق خرچ کر سکے ۔ دوسروں کی دست نگر نہ رہے ۔ اور فرمایا کہ بیوی کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ آپ کی خاطر اس نے اپنے سب تعلقات کو چھوڑ دیا ۔ میں تو اہل طریق سے کہا کرتا ہوں کہ ایک نو عمر لڑکی جو کام ایک دن میں کر کے دکھا دیتی ہے وہ تم نے برسوں میں بھی اللہ کے لئے کیا کہ سب تعلقات کو اس پر قربان کر دیتے ۔ امراء دنیا کے ساتھ بزرگوں کا معاملہ ارشاد فرمایا کہ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی قدس سرہ کی خدمت میں جب امراء و رؤسا میں سے کچھ لوگ آتے تھے تو ان کے ساتھ کبھی بے رخی کا معاملہ نہ کرتے بلکہ حسب حیثیت ان کا اکرام فرماتے تھے اور فرماتے تھے کہ بعض جاہل یا مغلوب الحال صوفی دنیا داروں سے بے رخی اور اعراض کا معاملہ کرتے ہیں یہ سنت کے خلاف ہے کیونکہ جب یہ لوگ کسی عالم یا درویش کے پاس حاضر ہوں تو یہ ظاہر ہے کہ اس میں کوئی دنیوی غرض تو ہوتی نہیں ، دین ہی کا فائدہ حاصل کرنے کے لئے آتے ہیں اس وقت وہ نعم الامیر ( اچھا امیر ) کہلانے کے مستحق ہیں بزرگوں نے فرمایا ہے ۔ نعم الامیر علی باب الفقیر و بش الفقیریر علی باب الامیر ۔ یعنی ۔ وہ امیر بہت اچھا ہے جو کچھ درویش کے دروازہ پر جائے اور وہ درویش بہت برا ہے جو کسی امیر کے دروازے پر ( دنیا کی غرض کے لئے ) جائے ۔