ملفوظات حکیم الامت جلد 24 - یونیکوڈ |
اس واقعہ میں ظاہر یہ ہے کہ صحابہ کرام کسی گناہ کے مرتکب نہیں ہوتے تھے ۔ مگر اس صغیرہ ہی کو احد کی شکست کا سبب قرار دیا گیا ۔ انبیاء علیہم السلام سے صغیرہ گناہ بھی سرزد نہیں ہوتا ارشاد فرمایا کہ مولانا سید مرتضی حسن صاحب نے مجھ سے نقل کیا ہے کہ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کی تحقیق یہ تھی کہ انبیاء علیہم السلام سے قبل نبوت یا بعد نبوت نہ کوئی گناہ کبیرہ سرزد ہوتا ہے نہ صغیرہ ۔ اور فرمایا کہ حضرت حاجی امداد اللہ کی تحقیق سے اس کی تائید ہوتی ہے وہ یہ کہ جو چیزیں انبیاء علیہم السلام کی زلات میں شمار کی گئی ہیں وہ بھی در حقیقت گناہ نہیں ۔ طاعت ہی ہوتی ہے مگر بڑی طاعت کے مقابلہ میں اس کے ساتھ اشتغال ان کی شان کے مناسب نہیں تھا اس لئے اس پر تنبہیہ کی گئی ۔ ایک اہم فائدہ ارشاد فرمایا کہ طاعات و عبادات کا بڑا فائدہ تو ثواب آخرت ہے وہ جب کوئی عمل اس کے شرائط و آداب کے ساتھ ادا کیا جائے اس پر ضرور مرتب ہو گا ۔ ان کا ایک دوسرا فائدہ خاص خاص اعمال کے آثار و برکات ہیں جن کا ظہور دنیا ہی میں ہوتا ہے مگر ان آثار کے مرتب ہونے کی شرط یہ ہے کہ عمل کرنے کے وقت ان آثار کے ترتب کی نیت بھی کرے ۔ عام طور پر جن لوگوں کو یہ آثار حاصل نہیں ہوتے اکثر اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ان کی نیت آثار کی نہیں ہوتی ۔ مثلا نماز کا یہ اثر قرآن کریم میں منصوص ہے کہ اس سے انسان کو تمام گناہوں سے بچنے کی توفیق ہو جاتی ہے ۔ یہ جبھی حاصل ہو گا جب کہ نماز کو شرائط و آداب کے ساتھ ادا بھی کرے اور یہ نیت بھی رکھے کہ نماز کی وجہ سے مجھے دوسرے گناہوں سے بچنے کی ہمت بھی ضرور ہو جائے گی ۔