ملفوظات حکیم الامت جلد 24 - یونیکوڈ |
اختلاف علماء کے موقع میں حضرت کا اعتدال واقعہ احمد حسن ۔ حضرتؒ کی خدمت میں عرصہ دراز سے ایک عالم رہتے تھے ۔ ذی علم ہونے کی بناء پر حضرتؒ نے ایک کتاب کی تصنیف کا کام بھی ان کے سپرد فرما دیا تھا جس کی تنخواہ ان کو عطا فرماتے تھے ۔ مولوی صاحبؒ موصوف خشک کتابی تقوی کے بڑے دلدادہ تھے اور حضرتؒ پر اعتراض کیا کرتے تھے کہ ان میں تقوی نہیں ۔ حضرت کو اس کا علم ہوتا تو فرماتے کہ وہ سچ کہتے ہیں میں کہاں کا متقی ہوں اس پر کبھی نا گواری پیش نہیں آتی ۔ اتفاقا اسی زمانہ میں تحریک خلافت چلی جس میں کانگریس کے ہندو بھی شریک ہو گئے اور ہندو مسلم اتحاد کی بنیاد پر آزادی ہند کی تحریک نے خلافت کی جگہ لے لی ۔ اس ہندو مسلم اشتراک نے جگہ جگہ خلاف شرع امور کو رواج دیا ۔ بعض اکابر علماء نے اصل مقصد یعنی انگریزوں سے ہندوستان کی آزادی کو اہم سمجھ کر اس اشتراک کو قبول کیا اور جہاں اس اشتراک کی وجہ سے خلاف شرع امور کا ارتکاب ہوتا تو وہ اس پر نکیر بھی فرماتے ۔ مگر تحریک عوامی ہو چکی تھی ۔ علماء کی فکر کا اثر بہت محدود دائرے میں رہتا ہے اور عام مسلمان غلط راستہ پر پڑ کر کفر و اسلام کا امتیاز کھوتے جاتے تھے ۔ حضرتؒ اس طرح اشتراک کو شرعا جائز بھی نہ جانتے تھے اور اسلام اور مسلمانوں کے لئے انجام کار مفید بھی نہ سمجھتے تھے ( جیسا کہ بعد کے واقعات نے اسکا مشاہدہ کرا دیا ) لیکن جو علماء اس کے جواز کے قائل تھے ان کا احترام و ادب ہمیشہ قائم رہا ان کے قول پر عمل کرنے والوں کے ساتھ وہی معاملہ رہا جو اجتہادی مسائل کے اختلاف میں رہنا چاہیے ۔ مولوی صاحب مذکور اس معاملے میں بھی حضرتؒ کے خلاف کانگرس کے حامی علماء کے ساتھ متفق الرائے تھے ۔ اس حد تک حضرتؒ کو کوئی ناگواری نہ تھی مگر وہ کچھ آ گے بڑھے اور خانقاہ امدادیہ میں رہتے ہوئے حضرت کے فتوی کے خلاف فتاوی شائع کئے کرائے ۔ جلسوں میں تقریریں کیں خانقاہ میں آنے والوں کو اپنا ہم خیال بنانے کی کوششوں میں تیز ہو گئے تو حضرتؒ نے ان سے فرمایا کہ ۔