ملفوظات حکیم الامت جلد 24 - یونیکوڈ |
حضرت حاجی صاحب کی تعلیم یہ ہے کہ ان سے خشونت کا برتاؤ نہ کریں اور فرمایا کہ اسی وجہ سے میرا معمول یہ ہے کہ امیر رئیس اگر تہذیب و ادب سے رہے تو بنسبت عام غرباء کے اس کی خاطر زیادہ کی جائے کیونکہ یہ لوگ اس کے عادی ہوتے ہیں اور بقاعدہ انز لوا الناس منازلھم یعنی ۔ جس کو دنیا میں جو درجہ و مرتبہ حاصل ہو ۔ اس کے مطابق اس سے معاملہ کرو ۔ انکے ساتھ ایسا ہی معاملہ مناسب ہے ۔ لیکن اگر وہ خود کوئی متکبرانہ معاملہ کریں یا علماء کی حقارت کی کوئی چیز ان سے ظاہر ہو تو قطعی پرواہ نہ کی جائے ۔ ان کے عمل کا جواب اس کے مناسب دیا جائے ۔ خلاصہ یہ ہے کہ نہ ان کو ذلیل کرے نہ خود اپنے آپ کو ان کے سامنے ذلیل کرے ۔ اور پھر فرمایا کہ حقیقت میں ذلت یہ ہے کہ کسی کے سامنے ہاتھ پھلائے اور اپنی ضرورت و حاجت پیش کرے ۔ پھٹے کپڑے ، ٹوٹے جوتے پیوند زدہ لباس کوئی ذلت نہیں ۔ صغیرہ اور کبیرہ گناہ ! ارشاد فرمایا کہ جس گناہ کو صغیرہ یعنی چھوٹا کہا جاتا ہے وہ بڑے گناہ کے مقابلہ میں چھوٹا ہے ورنہ ہر گناہ اس حیثیت سے کہ اس میں اللہ اور اس کے رسول ؐ کی نافرمانی ہے بڑا ہی گناہ ہے جیسے پھونس کے چھپر میں بڑا انگارہ اس کے لئے مہلک ہے اسی طرح چھوٹی سی چنگاری کا بھی وہی انجام ہے کہ وہ بھی جب بھڑک اٹھتی ہے تو انگارہ بن جاتی ہے اس لئے گناہوں میں صغیرہ و کبیرہ کی تقسیم باہمی اضافت و نسبت کے اعتبار سے ہے ۔ صغیرہ گناہ کو بھی چھوٹا سمجھ کر بے پرواہی کرنا اپنی ہلاکت کو دعوت دینا ہے ۔ قرآن کریم میں غزوہ احد کی ابتدائی شکست کو صحابہ کرام کی ایک لغزش کا نتیجہ قرار دیا ہے ارشاد یہ ہے ۔ انما استزلھم الشیطان ببعض ما کسبوا ۔ یعنی ۔ لغزش دے دی شیطان نے ان کے بعض اعمال کی وجہ سے ۔