ملفوظات حکیم الامت جلد 24 - یونیکوڈ |
تعالی کے نزدیک قبول اور انجام بخیر ہونے پر ہے اس کا کسی کو علم نہیں ۔ اس لئے اپنے آپ کو کسی ادنی سے ادنی انسان سے افضل جاننا جائز نہیں ۔ حاضرات محض خیالی چیز اور مسمریزم کی قسم ہے ارشاد فرمایا کہ بہت سے گنڈے والے حاضرات کے ذریعہ معلومات حاصل کرنے کے قائل ہیں میرا تجربہ یہ ہے کہ حاضرات محض خیالات کا تصرف ہے اگر اس مجلس میں کوئی آدمی یہ خیال جما کر بیٹھے کہ یہ کچھ نہیں ۔ بالکل باطل ہے تو حاضرات کا ظہور اسے نہ ہو سکے گا ۔ ہم نے خود اس کا تجربہ کیا ہے کہ جب تک یہ خیال جمائے بیٹھے رہے حاضرات والے والے عاجز ہو گئے کچھ نظر نہ آیا اور جب یہ خیال ہٹا لیا تو سب کچھ نظر آنے لگا ۔ علم کلام کا صحیح مقام ارشاد فرمایا کہ علم کلام کی ضرورت بدعات اعتقادیہ کی وجہ سے پیدا ہوئی لوگوں نے عقائد السلامیہ میں طرح طرح کے شبہات پیدا کرنے شروع کئے تو علماء کو شبہات دور کرنا ضروری ہو گیا اس سے علم کلام پیدا ہوا ۔ اور یہ ٹھیک ایسا ہی ہے کہ جیسے ہمارے زمانے میں علم فقہ میں جزئیات فقہیہہ ۔ اور یہ تحقیق کہ نماز میں فرض کتنے ہیں واجب کتنے اور سنت مؤکدہ کیا ہیں ۔ اور مستحبات یا مکروہات کیا ۔ جب لوگوں نے نماز کی ادائیگی میں کوتاہیاں ۔ اور نقائض پیدا کئے تو فقہا کے لئے ضروری ہو گیا کہ اعمال نماز کا تجزیہ کر کے بتلائیں کہ اس میں کون سا فرض یا واجب ہے جس کے بغیر نماز ادا نہیں ہوتی ۔ کونسا عمل مسنون مستحب ہے جس کے ترک کر دینے کے باوجود نماز ادا ہو جاتی ہے گو ناقص ہو ۔ حضرات صحابہ کرام کے زمانے میں نہ یہ بدعات اعتقادیہ پیش آئی تھیں اور نہ احکام شرعیہ میں اتنے نقائص اور کوتاہیاں اس لئے اس وقت نہ علم کلام کی ضرورت تھی نہ موجودہ طرز کے علم فقہ کی ۔ بعد میں جب ضرورت پیدا ہوئی ۔ تو یہ علوم و فنون ضروری سمجھے گئے مگر ایک بات یاد رکھنے چاہیے کہ علم کلام کی تحقیقات کو صرف مانع اصطلاحی کا درجہ دیا جائے جس کا حاصل ایک احتمال پیدا