ملفوظات حکیم الامت جلد 24 - یونیکوڈ |
چڑھنے کے بعد کھلی ۔ اس پر یہ اشکال معروف ہے کہ حدیث میں تو یہ آیا ہے کہ میری آنکھ سوتی ہے قلب نہیں سوتا ۔ جب قلب بیدار تھا تو نماز قضا ہو جانے کی نوبت کیونکر آئی ۔ اس تقریر پر جواب یہ ہے کہ اونگھ میں اگرچہ مکمل غفلت نہیں ہوتی مگر وقت کا اندازہ نہیں رہتا ۔ پھر فرمایا کہ اس تقریر سے شبہات تو اچھی طرح حل ہو جاتے ہیں مگر میں نے یہ تقریر کہیں نہیں دیکھی اس لئے اگر قواعد کے موافق ہو تو قبول کیا جائے ورنہ رد کیا جائے ۔ پھر فرمایا کہ میں یہ چاہتا ہوں کہ اگر اپنی سمجھ میں کوئی بات ایسی آ بھی جائے جو کہ حضرات متقدمین سے منقول نہ ہو تو جی چاہتا ہے کہ جہاں تک ہو سکے تلاش کر کے متقدمین بزرگوں میں کسی کا قول ایسا مل جائے تو ان کی طرف نسبت کی جائے ۔ بیان القرآن میں اس کی میں نے بہت کوشش کی ہے ۔ ورع و تقوی میں نفس کا کوئی حظ نہیں اور عبادات میں کچھ حظ نفس بھی ہے ارشاد فرمایا کہ تجربہ شاہد ہے کہ انسان پر عبادات اتنی شاق نہیں ہوتیں جتنا تقوی یعنی محرمات و مکروہات سے بچنا ۔ وجہ یہ ہے کہ عبادات وجودی چیزیں ہیں دیکھنے والوں کو نظر آتی ہیں خود بھی آدمی ایک کام کرتا ہوا اپنے آپ کو پاتا ہے تو اس سے حظ نفس ہوتا ہے بخلاف ورع اور تقوی کے کہ وہ ایک عدمی چیز ہے ۔ محرمات و مکروہات کے ترک کرنے کا نام تقوی ہے اس میں نہ کوئی کام کرنا پڑتا ہے نہ کسی کو کوئی کام نظر آتا ہے ۔ ( یکم محرم 1393 ھ سہ شنبہ ) ارشاد فرمایا کہ سچ تو یہ ہے کہ فقہاء کا مقام سب سے بڑا ہے کیونکہ وہ معانی کے خواص کو پہنچانتے ہیں بخلاف حکماء کے کہ ان کی نظر صرف اجسام کے خواص پر محصور ہے ۔ ایک لطیفہ حضرت شریح کا قول ہے کہ جب اپنی کوئی حاجت پیش آئے تو جوانوں سے طلب کرو وہ