ملفوظات حکیم الامت جلد 24 - یونیکوڈ |
اجملوا فی الطلب و تو کلوا علی اللہ ۔ یعنی اپنے مقاصد کے حصول میں مختصر کوشش کرو پھر اللہ پر بھروسہ کرو ۔ حضرتؒ نے اسی مضمون کی تعبیر اس طرح فرمائی کہ آدمی کا کام ہر مقصد میں یہ ہے کہ قانونی کوشش اور معمولی احتیاط کرے پھر قلب کی شہادت پر تفویض علی اللہ کے ساتھ اس کوشش کو جاری رکھے ۔ خود تقوی پر عمل اور دوسروں کے لئے سہولت دینے کا اہتمام اور ہر کام میں آداب معاشرت کی رعایت حضرتؒ ایک ریاست میں تشریف لے گئے وہاں کے نواب صاحب نے ایک سو اکھتر روپیہ نذرانہ پیش کیا ۔ فرمایا کہ اس وقت کچھ دوسرے علماء بھی ساتھ تھے اتنا ہی نذرانہ ان کو بھی پیش کیا ۔ مجھے اس نذرانہ میں شبہ تھا اس لئے قبول کرنے کے لئے دل آمادہ نہیں تھا ۔ مگر میں انکار کر دیتا تو دوسرے لوگوں کو بھی پھر یہی صورت اختیار کرنا پڑتی ۔ میں نے چاہا کہ دوسروں کا نقصان نہ ہو ۔ خفیہ طور پر ان کے وزیر سے کہہ دیا کہ میں یہ نذرانہ نہیں لوں گا ۔ اول تو میرا معمول اس طرح نذرانہ لینا ہے نہیں ۔ دوسرے مجھے اس میں شبہ یہ بھی ہے کہ یہ مال نواب صاحب کی ملک تو ہے لیکن ایک بیت المال کا سا درجہ ہے ۔ اور مجھے ان کے بیت المال سے کچھ لینے کا اس لئے حق نہیں کہ میں ان کی ریاست میں کوئی خدمت لوگوں کی نہیں کرتا ۔ یہ ہیں آداب معاشرت جن کی حفاظت سب کو کرنا چاہیے ۔ اسی لئے حضرتؒ نے اس کے بعد فرمایا کہ عبادات کے ارکان اور احکام اگرچہ عظمت سے بہت زیادہ عظیم اور افضل ہیں مگر معاشرت کے ارکان مہتم بالشان زیادہ ہیں کیونکہ ان کا اہتمام نہ کرنے سے دوسروں کو تکلیف پہنچتی ہے ۔ پھر فرمایا کہ حضرت حاجی صاحب قدس سرہ نے ضاء القلوب میں لکھا ہے کہ جب تک انسان کے اخلاق ( باطنی عادات ) درست نہ ہوں ۔ اس میں وصول الی اللہ کی صلاحیت اور استعداد پیدا نہیں ہوتی ۔ ( اور یہ ظاہر ہے کہ اخلاق کی درستی بغیر