ملفوظات حکیم الامت جلد 24 - یونیکوڈ |
پاگلوں کو مقتداء اور امام بنا لیا ہے ۔ حضرتؒ نے فرمایا حقیقت یہ ہے کہ مجذوب اور عام پاگل میں فرق پہنچاننا آسان کام نہیں بس اس کو اہل نسبت اولیاء اللہ ہی پہچان سکتے ہیں جس کو ایسے حضرات مجذوب قرار دیں وہ مجذوب ہے ورنہ مجنون اور پاگل اگرچہ اس کو کچھ کشف صحیح بھی ہو جاتا ہو کیونکہ مجنون کو بھی کشف صحیح ہو سکتا ہے ۔ عقائد سلف اور علم کلام میں سلامتی کا راستہ فرمایا کہ حضرات متکلمین نے حق تعالی کی ذات و صفات کے بارے میں جو کچھ کہا ہے وہ در حقیقت اہل بدعت والحاد کی مدافعت ہے اس کو علمی اصطلاح میں صرف منع ( ابدء احتمال ) کے درجے میں رہنا چاہیے جس کا حاصل یہ ہے کہ ایسی صورت ہو تو یہ ممکن اور محتمل ہے محال نہیں ۔ یہ نہیں کہ واقع میں عند اللہ ایسا ہی ہے مگر ہو یہ گیا کہ متاخرین متکلمین بجائے مانع بننے کے مدعی بن بیٹھے اور اپنے پیدا کئے ہوئے احتمالات کو اسلام کے عقیدہ کا درجہ دے دیا ۔ ( اس کو ایک مثال سے سمجھئے اور کلام کے ایک مشہور مسئلے کو لے لیجئے کہ جسم کی ترکیب میں بمقابلہ فلاسفہ انہوں نے کہا ہے کہ وہ اجزاء لا یتجزاء سے مرکب ہے ۔ ہیولی اور صورت سے نہیں ۔ یہ بات اس لئے اختیار کی گئی کہ فلاسفہ کے قول کے مطابق ہیولی اور صورت سے جسم کو مرکت مانا جائے تو اس کے نتیجہ میں اس کو قدیم ماننا لازم آتا ہے ۔ متکلمین نے ایک دوسرا احتمال یہ پیش کیا کہ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ وہ اجزاء لایتجزی سے مرکت ہو ۔ اس کو اگر صرف احتمال کے درجے میں رکھا جاتا تو درست تھا مگر متاخرین نے اس کو ایسے انداز میں پیش کیا کہ گویا یہ اسلام کا عقیدہ ہے اور ظاہر ہے کہ اسلامی عقیدہ کے لئے قطعی الثبوت دلائل کی ضرورت ہے وہ اس مسئلے کے لئے موجود نہیں ) حضرتؒ نے فرمایا کہ اس لئے میں تو یہ کہتا ہوں کہ علم کلام کو صرف مدافعت اہل بدعت اور منع اصطلاحی یعنی احتمال و امکان کے درجے میں رکھنا چاہیے ۔ اور عقائد کو مثل سلف صالحین کے ان مباحث سے سادہ رکھنا چاہیے ۔