ملفوظات حکیم الامت جلد 24 - یونیکوڈ |
عشق کے درجہ تک رغبت پہنچ گئی اسی طرح جس طرح باطن میں کمال ایمان انسان کے اعمال صالحہ کا سبب بنتا ہے اسی طرح بعض اوقات دل میں داعیہ نہیں ہوتا مگر عمل شروع کر دینے سے دل میں بھی شوق و رغبت پیدا ہو جاتی ہے اس لئے سالک اور طالب کو چاہیے کہ مرشد نے جو معمولات بتلا دیئے ہیں ان کے پورا کرنے میں اس کا انتظار نہ کرے کہ دل لگے گا تو کروں گا بلکہ ہونا یوں چاہیے کہ ان کو کرنا شروع کر دے ۔ آہستہ آہستہ دل بھی لگ جائے گا ۔ 16 صفر 1355 ھ ایک صاحب نے حضرتؒ کو خط میں لکھا کہ میں داڑھی منڈواتا ہوں اور فلاں فلاں گناہوں کا مرتکب ہوں مگر دل چاہتا ہے کہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوں اگر ان حالات میں آپ اجازت دیں تو حاضر ہو جاؤں ۔ حضرتؒ نے جواب میں تحریر فرمایا کہ آپ کا ظاہر خراب ہے اور باطن اچھا ہے اور میرا باطن خراب ہے ظاہر اچھا ہے اس سے معلوم ہوا کہ دونوں میں کوئی مناسبت نہیں ۔ اگر دونوں کے عیوب ایک جیسے ہوتے تو مناسبت ہو جاتی اور عدم مناسبت کی صورت میں کام نہیں ہو سکتا ۔ اس لئے تکلیف سفر ضائع ہو گی ۔ مناسب نہیں ۔ اور پھر خود ہی فرمایا کہ اسی طرح کا ایک مضمون ایک اور صاحب نے بھی لکھ کر اجازت مانگی تھی ۔ ان کو میں نے لکھ دیا تھا کہ جس حال میں بھی ہو آ جاؤ ۔ وجہ یہ تھی کہ ان کا خط پڑھ کر فکر اصلاح مترشح ہوئی تھی اور ان کے خط سے اسکی امید نہ ہوئی اس لئے جواب مختلف ہو گئے ۔ خطرات نفسانیہ اور شیطانیہ میں فرق ارشاد فرمایا کہ اگر ایک ہی معصیت کا تقاضا نفس میں بار بار پیدا ہو تو یہ علامت اس کی ہے کہ یہ خطرہ نفسانی ہے اور اگر ہر مرتبہ مختلف قسم کے گناہوں کا تقاضا اور خطرہ دل میں پیدا ہو تو وہ خطرہ نفسانی سمجھا جائے ۔ کیونکہ نفس کا خطرہ اپنی خواہش و لذت پورا کرنے پر مبنی ہوتا ہے اسی کو مکرر پیش کرتا رہتا ہے اور شیطان کی غرض تو صرف یہ ہے کہ یہ کسی نہ کسی گناہ میں مبتلا