ملفوظات حکیم الامت جلد 24 - یونیکوڈ |
|
سلب نسبت کی حقیقت کسی نے سوال کیا کہ یہ جو مشہور ہے کہ بعض مشائخ نے دوسرے کی نسبت سلب کر لی ۔ اس کی حقیقت کیا ہے تو فرمایا کہ نسبت حقیقیہ تو تعلق مع اللہ کا نام ہے اس کو کون سلب کر سکتا ہے البتہ ایک نسبت عوام کی اصطلاح ہے اس کو سلب کیا جا سکتا ہے ۔ یہ کیفیت نشاط و انبساط ہوتی ہے جو ذکر الل اور عبادت کی کثرت میں معین ہوتی ہے ۔ یہ کیفیت نفسانی ہے روحانی نہیں ۔ جیسے حزن و نشاط وغیرہ اس کے سلب کرنے سے فی نفسہ تو کوئی ضرر نہیں مگر اس سے سہلوت اعمال مسلوب ہو جاتی ہے اگر کوئی شخص سہولت نہ ہونے کے باوجود مشقت اٹھا کر سب کام پورے کرتا رہے تو اس کو کوئی ضرر دیتی نہیں ۔ ہاں جو مقاومت نہ کر سکے اور سہولت مسلوب ہو جانے کے بعد اعمال میں کمی کر دے تو یہ دینی ضرر بھی ہے ۔ اس لئے نا جائز ہے ۔ ہاں خود سالک کا اپنی ضرورت کے لئے ایسا کرنے میں مضائقہ نہیں ۔ جیسا کہ بعض بزرگوں کے واقعات سے ثابت ہے کہ جو شخص ذکر شغل میں لگ کر حقوق العباد کے فریضہ میں کوتاہی کرنے لگا اس کی یہ نسبت انبساط سلب کر لی تو وہ پھر سب حقوق ادا کرنے لگے ۔ نسبت ولایت کی تعریف فرمایا کہ اصطلاح صوفیہ میں جس کو نسبت کہا جاتا ہے وہ اس تعلق مع اللہ کا نام ہے جس کے لوازم میں سے دو چیزیں ہیں ایک دوام طاعت ۔ دوسرے کثرت ذکر ۔ ذکر کے ساتھ دوام اس لئے نہیں کہ وہ انسان کے بس میں نہیں ۔ البتہ طاعت یعنی اطاعت احکام اس پر دوام انسان سے ہو سکتا ہے اور فرمایا کہ ولی سے معصیت کا صدور ہو سکتا ہے مگر صدور معصیت کے ساتھ بھی یہ نسبت خاصہ باقی نہیں رہتی ۔ البتہ توجہ کرنے سے پھر عود کر آتی ہے ۔ آیت ربنا لاتؤا خذنا ان نسینا پر شبہ اور جواب فرمایا کہ حدیث میں ارشاد ہے کہ رفع عن امتی الخطاء والنسیان یعنی میری امت