ملفوظات حکیم الامت جلد 24 - یونیکوڈ |
|
سال چھ ماہ ملے وہ بھی اتنہائی مشغول و مصروف اسی حال میں ایک روز موقع پا کر احقر اور اخی فی اللہ مولانا محمد طیب صاحب مہتمم دار العلوم دیو بند اور چند حضرات نے حضرت کے ہاتھ پر بیعت طریقت کی ۔ چند تسبیحات کی تلقین حضرتؒ نے فرمائی ۔ اس سے زائد اس طریق میں استفادہ کا موقع ہی نہ تھا ۔ ہمارے لئے یہ بھی کچھ کم نعمت نہ تھی کہ بیعت کی دیرینہ تمنا پوری ہو گئی ۔ حضرت شیخ الہندؒ کی وفات کے بعد ملک کے ہنگامے اور روز روز کے نئے انقلابوں اور فتنوں کا ایک سلسلہ چل پڑا ۔ دوسری طرف عیال بڑھا ۔ ان کے مشاغل و ذو اہل نے غفلت کے کچھ ایسے پردے ڈال دیئے کہ یہ سبق ہی گو یا ذہن سے نکل گیا ۔ اس عرصہ میں تعلیم کے ساتھ کچھ تصنیفی مشاغل بھی رہے مگر بزرگوں کی خدمت سے اکتساب فیض کا وہ پچھلا داعیہ بہت ہی مضمحل ہو کر رہ گیا 39 ھ سے 45 تک یہی صورت حال رہی ۔ 1345 ھ میں کچھ تنبہ ہوا ۔ اس وقت حضرت مولانا شاہ عبد الرحیم رائے پوریؒ کی بھی وفات ہو چکی تھی ۔ اب تھانہ بھون کے سوا اس مقصد کے لئے کوئی جائے پناہ نہ تھی ۔ مگر اس میں ایک مشکل یہ پیش آئی کہ حضرت شیخ الہندؒ کی واپسی اور ان سے بیعت کے بعد تمام تر قلبی تعلق اور اقتداء و اتباع کا محور حضرتؒ کی ذات گرامی بن گئی تھی انہیں کے ایماء پر یہ نا کارہ بھی اپنی بساط کے مطابق آزادی ہند کی تحریکات میں مشغول رہا ۔ حضرت سیدی حکیم الامتہ قدس سرہ اگرچہ حضرت شیخ الہندؒ کے شاگرد اور نہایت معتقد اور ان کے مقصد جہاد سے بالکل متفق تھے ۔ مگر اس وقت کی سیاسی تحریکات نے ہندوؤں کے اشتراک اور شرعی حدود سے نا واقف اور بے پروا لیڈروں کی شمولیت سے کچھ ایسا رنگ اختیار کر لیا تھا کہ جلسوں جلوسوں میں خلاف شرع امور بے پروائی کے ساتھ کئے جاتے تھے ۔ ہندوؤں کے ساتھ اشتراک عمل میں اسلامی شعائر اور شرعی حدود کی کوئی پرواہ نہیں رہی تھی ۔ اس لئے ان تحریکات میں آپ نے شرکت نہیں فرمائی ۔ حضرت شیخ الہندؒ جو اس وقت تحریک کے امام تھے ان کی بھی اس احساس ہی نے ایک جماعت بنام جمیتہ علماء ہند قائم کرنے پر مجبور کیا تھا کہ اس تحریک کے ساتھ علماء کی رہنمائی کی وجہ