ملفوظات حکیم الامت جلد 24 - یونیکوڈ |
|
سے ان منکرات اور خلاف شرع امور سے نجات ملے جس کا پہلا جلسہ دہلی میں حضرت ہی کی صدارت میں ہوا اور اس کے خطبہ صدارت میں اس طرح کے منکرات پر کھل کر نکیر بھی کیا گیا ۔ لیکن حضرت حکیم الامت قدس سرہ کی نظر میں اس وقت تحریک پر قبضہ ایسے لیڈروں کا ہو چکا تھا جن کی اکثریت سے علماء کے اتباع اور حدود شرعیہ کی رعایت کی امید نہ تھی ۔ خصوصا ہندوؤں کے ساتھ جن بنیادوں پر اشتراک ہو رہا تھا ان سے کسی حال یہ امید نہ تھی کہ اس کے نتیجہ میں کوئی اسلامی حکومت بن سکے اس لئے ان تحریکات سے یکسو رہے ۔ دونوں بزرگوں کا یہ اختلاف رائے دینی اور شرعی وجوہ ہی کی بناء پر تھا اور اختلاف کے اصلی حدود کے اندر تھا حضرت حکیم الامتہ تو شاگرد ہونے کی بناء پر حضرت شیخ الہندؒ کا انتہائی ادب و احترام رکھتے ہی تھے خود حضرت استاد کا بھی یہ حال تھا کہ تھانہ بھون میں جلسہ خلافت کی صدارت کے لئے قصبہ کے لوگوں نے آپ کو دعوت دی اور اس زمانے میں حضرت اکثر اس طرح کے جلسوں کے لئے سفر کر رہے تھے مگر اہل تھانہ بھون کی درخواست پر فرمایا کہ اور جہاں کہیں آپ جلسہ کر وائیں میں شریک ہوں گا مگر تھانہ بھون جا کر جلسہ کرنا مجھے پسند نہیں ۔ کیونکہ مولانا تھانویؒ کو میری رائے سے جو اختلاف ہے وہ بھی دینی اور شرعی وجوہ پر ہے اگر میں وہاں جلسہ میں گیا تو وہ اپنی فقہی اور شرعی رائے کی بناء پر شرکت نہ کر سکیں گے اور عدم شرکت سے ان کو سخت ضیق اور تنگی پیش آ ئے گی میں اس کو برداشت نہیں کر سکتا ۔ بہر حال دونوں بزرگوں کی رائیں خالص دینی وجوہ کی بناء پر مختلف تھیں ہم اس وقت تو کیا آج بھی اس حیثیت میں نہیں کہ ان کی رائے میں محاکمہ کریں یہی ہو سکتا تھا کہ جس کی طرف قلب کا میلان زیادہ ہو اس کی اتباع کریں ۔ اسی کے نتیجہ میں حضرت شیخ الہندؒ کی تحریکات میں حصہ لیا ۔ اور حضرت حکیم الامتہ قدس سرہ سے بھی اگرچہ الحمد للہ عقیدت میں کوئی فرق نہیں آیا مگر ان کی رائے کی اتباع نہ کرنے کے سبب ایک قسم کا حجاب درمیان میں آ گیا اور تقریبا آٹھ سال تک تھانہ بھون کی حاضری سے محرومی اور سلسلہ خط و کتابت بند رہنے کی ایک شرمندگی دامن گیر تھی جو اب تھانہ بھون