سفر نامہ ڈھاکہ و رنگون |
ہم نوٹ : |
|
لیکن وہاں سے جواب آیا کہ حضرت علیل ہیں خلفاء میں سے کسی مصلح کا انتخاب کر لیا جائے ۔ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ حضرت تھانوی رحمۃ ا للہ علیہ کی رحلت کی خبر ملی، شدید صدمہ ہوا اور بار بار یہ اشعار زبان پر آتے تھے اور گریہ طاری ہو جاتا تھا ؎ جو تھے نوری وہ گئے افلاک پر مثل تلچھٹ رہ گیا میں خاک پر بلبلوں نے گھر کیا گلشن میں جا کر اور بوم ویرانے میں ٹکراتا رہا جس دن طبیہ کالج سے فارغ ہوئے اور پھوپھی کے گھر پہنچے تو گھر سے اطلاع ملی کہ والد گرامی کا سایہ سر سے اٹھ گیا غم کا ایک پہاڑ ٹوٹا اور قلب کو شدید غم پہنچا لیکن اپنے آپ کو سنبھالا اور قبرستان تشریف لے گئے ، قبروں کو نگاہِ عبرت سے دیکھا اور دل کو سمجھایا کہ یہ ہی سب کی منزل ہے اور حق تعالیٰ کی رضا پر راضی رہنا ہی عینِ عبدیت ہے ۔ حضرتِ اقدس دامت برکاتہم العالیہ بچپن ہی سے بطریق ِجذب آتشِ عشق الٰہی سے نوازے گئے تھے۔حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی رحلت کے بعد سلسلہ تھانوی کے کسی ایسے شیخ اور مصلح کی تلاش میں رہے جو سراپا درد ِ عشق و محبت اور سوختہ جان ہو۔ اسی دوران الٰہ آباد میں حضرت مولانا شاہ فضلِ رحمٰن صاحب گنج مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ کے سلسلہ کے ایک بزرگ حضرت مولانا شاہ محمد احمد صاحب پرتاب گڑھی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوتے رہے اور روزانہ عصر سے رات گیارہ بجے تک حضرت کی خدمت میں رہتے ۔ حضرت مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ زبردست صاحب ِ نسبت اور سراپا محبت تھے اور حضرت والا سے بے انتہا محبت اور شفقت فرماتے تھے، حضرت والا اگر کبھی رات کا قیام فرماتے تو حضرت مولانا محمد احمد صاحب رحمۃ ا للہ علیہ گھر سے اپنا بستر باہر خانقاہ میں لے آتے اور فرماتے کہ یہاں بڑے بڑے علماء آتے ہیں لیکن میں کسی کے لیے گھر سے باہر بستر نہیں لاتا صرف آپ کے لیے گھر سے باہر آ کر سوتا ہوں۔