سفر نامہ ڈھاکہ و رنگون |
ہم نوٹ : |
|
جناب حافظ ابو البرکات صاحب رحمۃ ا للہ علیہ سے دم کروانے لے جاتی تھیں۔ جناب حافظ صاحب رحمۃ ا للہ علیہ حضرت حکیم الامّت مجدد الملّت مولانا شاہ اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃاللہ علیہ کے خلیفہ مجاز تھے۔حضرت والا فرماتے ہیں کہ اس وقت بھی اللہ تعالیٰ کی محبت میں مجھے مسجد کے درو دیوار ، مسجد کی خاک اچھی معلوم ہوتی تھی اور حضرت حافظ صاحب رحمۃ ا للہ علیہ سے مجھے اللہ تعالیٰ کی خوشبو محسوس ہوتی تھی اور دل میں آتا تھا کہ یہ اللہ تعالیٰ کے پیارے ہیں۔ اتنے چھوٹے بچے کو جبکہ ہوش و حواس بھی صحیح نہیں ہوتے اللہ تعالی کی محبت محسوس ہونا دلیل ہے کہ حضرت والا مادر زاد ولی ہیں کچھ اور ہوش سنبھالنے کے بعد نیک بندوں کی محبت اور بڑھ گئی اور ان کی وضع قطع دیکھ کر بہت خوشی ہوتی اور ہر مولوی، حافظ اور داڑھی والے کو محبت سے دیکھتے ۔ درجہ چہارم تک اردو تعلیم حاصل کرنے کے بعد حضرت والا نے اپنے والد صاحب سے درخواست کی کہ علم دین حاصل کرنے کے لیے دیو بند بھیج دیا جائے، لیکن والد صاحب نے مڈل اسکول میں داخل کرا دیا حضرت والا کا دل ان دنیوی تعلیمات میں بالکل نہیں لگتا تھا اور والد صاحب سے بارہا عرض بھی کیا لیکن ان کے اصرار پر ناچار سخت مجاہدہ کر کے یہ دن گزارے ۔ اسی زمانہ میں جبکہ حضرت والا بالغ بھی نہیں ہوئے تھے گھر سے دورجنگل کی ایک مسجد میں جا کر عبادت کیا کرتے تھے اور تنہائی میں اللہ تعالیٰ کی یاد میں رویا کرتے تھے۔ مسجد سے کچھ فاصلے پر مسلمانوں کے چند گھر آباد تھے،حضرت والا نے ان کو نماز پڑھنے کی دعوت دی اور ان پر مسلسل محنت کی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے وہ نمازی بن گئے اور مسجد میں اذان اور جماعت ہونے لگی اور لوگ آپ کو بطورِ مزاح اس مسجد کے نمازیوں کا پیر کہنے لگے ۔ بچپن ہی میں حضرت والا چپکے سے اٹھ کر گاہ گاہ رات کے آخری حصہ میں ایک مسجد میں چلے جاتے تہجد پڑھتے اور فجر تک اللہ تعالیٰ کی یاد میں خوب گریہ وزاری کرتے،ایک بار والد صاحب کے دوستوں میں سے کسی نے دیکھ لیا اور ان کو اطلاع کر دی اگلے دن جب حضرتِ والا فجر کے قریب مسجد سے باہر آئے تو والد صاحب مسجد کے باہر