سفر نامہ ڈھاکہ و رنگون |
ہم نوٹ : |
|
کو؟تو اس کا جواب قرآنِ پاک میں وہ فرمارہے ہیں جن کے لیے گناہ چھوڑنے ہیں کہ پہلے ظاہری گناہ کو ترک کرے پھر اس کی برکت سے باطنی گناہ خود ہی متروک ہوجائیں گے۔ایک حدیث شریف میں ہے کہ وہ شخص بخشے جانے کے قابل نہیں جو ظاہری گناہ میں مبتلا ہے۔ یہ سب سے خطرناک گناہ ہیں۔ ارشاد فرمایا کہسب گناہوں میں سالکین کے لیے آنکھ کا گناہ سب سے خطرناک ہے، بڑے بڑے صوفیوں کو ایئرہوسٹس سے نظر بچانا مشکل ہوجاتا ہے۔ شریعت کے سب احکام سر آنکھوں پر، لیکن یہ گناہ دل کو برباد کردیتا ہے۔ اللہ والوں کا قلب ایک سو اسّی ڈگری اللہ کی طرف رہتا ہے، دیگرگناہوں سے کچھ اعشاریہ انحراف ہوتا ہے لیکن حسینوں کو دیکھنے سے ایک سو اسّی اعشاریہ انحراف ہوجاتا ہےاورقبلہ ہی بدل جاتا ہے، جب قلب کا قبلہ بدل جائے گا تو ہر گناہ کرے گا، اسی لیے بخاری شریف کی حدیث میں ہے کہ جو شخص بدنگاہی کرتا ہے وہ آنکھوں کا زنا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اِنَّ اللہَ خَبِیۡرٌۢ بِمَا یَصۡنَعُوۡنَقرآنِ مجید کی اس آیت میں بدنگاہی کو صنعت فرمایا ہے،کیوں کہ دیکھنے میں چہرہ مختلف شکلیں اختیار کرتا ہے۔مٹی کے اجسام کو دیکھنا اور رحمت ِحق سے محروم ہونا کہاں کی عقل مندی ہے؟ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں اِلَّامَارَحِمَ رَبِّیۡ؎ بدنظری کرنے والا رحمت کے سایہ سے محروم ہے۔ دل میں صلاحیت ختم ہوجاتی ہے۔ جب رحمت کا سایہ ہٹ گیا تو نفسِ امّارہ سے کس طرح بچ سکتا ہے؟ سڑکوں پر اس کا مراقبہ کرو کہ اللہ تعالیٰ ہماری تمام حرکتوں سے باخبر ہیں،یہ آنکھوں کا زنا ہے،اللہ کی لعنت بر سے گی۔ جب اس گناہ پر اتنی شامتیں اور محرومیاں ہیں تو اب کیا رہ گیا ہے؟ صرف مٹی کا کھلونا رہ گیا ہے، مرکروہ بھی دفن ہوجائے گا، لہٰذا آج ہی ارادہ کرو کہ ایک نظر بھی خراب نہ کریں گے۔ حدیث شریف میں نظر بچانے پر حلاوتِ ایمانی کا وعدہ ہے۔ حلاوتِ بصارت فدا کی تو حلاوتِ بصیرت مل گئی اور دل کی حلاوت سے نور پیدا ہوتا ہے۔ ------------------------------