سفر نامہ ڈھاکہ و رنگون |
ہم نوٹ : |
|
کی آیت تلاوت فرمائی اور ارشادفرمایا کہ گناہ کرنے والا بھی اپنے آپ کو بُرا سمجھتا ہے لیکن اپنی نالائقی کا علم علاج کے لیے کافی نہیں، جیسے کسی کو ڈاکٹر نے گردے میں پتھری بتلائی ہو تو صرف علم ہونے سے علاج نہیں ہوگا جب تک دوا اور پرہیز نہ کرے، اسی طرح بہت سارے سالکین کو روحانی بیماری کا علم ہے، لیکن صحت حاصل نہیں۔علم پر عمل کرنے کے لیے قوتِ ارادیہ اور ہمت کی ضرورت ہے اور وہ اہلِ ہمت سے ملتی ہے، جو کہ ہر وقت یُرِیۡدُوۡنَ وَجۡہَہٗ رہتے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات کو مراد بنائے رہتے ہیں۔ یہآیت حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر اتریتھی۔اوریُرِیۡدُوۡنَ فعل مضارع لاکر اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اس زمانہ حال اور مستقبل کی وفاداری کی ضمانت دی کہ اب بھی اور مستقبل میں بھی میرے مرید ہیں اور میں ان کی مراد ہوں۔ یُرِیۡدُوۡنَ وَجۡہَہٗ؎ جملہ خبریہ نازل فرما کر بتلایا کہ جس کو میری معرفت حاصل ہو جائےگی وہ میرا ہی مرید ہوگا، جس شخص کا کوئی بھی ارادہ نہ ہو وہ گناہ سے نہیں بچ سکتا۔ ارادۂ خیر سے خیر ملے گی اِنَّ النَّفۡسَ لَاَمَّارَۃٌۢ بِالسُّوۡٓءِ کے لیے ارادہ بالخیر ضروری ہے، اگر دل کسی ارادے سے خالی ہوگا تو خود بخود ارادہ بالشر آجائے گا کیوں کہ نفس کی فطرت اِرَادَۃ بِالسُّوْءِ ہے یعنینفس کَثِیْرُ الْأَمْرِ بِالسُّوْءِ؎ بہت زیادہ بُرائی کا حکم دینے والاہے اور اَلسُّوْء کا الف لام جنس کے لیے ہے کہ گناہ کی کوئی قسم ایسی نہیں جو اس میں داخل نہ ہو۔ تو مولیٰ نے مولیٰ ملنے کا طریقہ خود بتلادیا کہ میرے پانے والوں کے ساتھ رہو، جیسے کباب کا عاشق کباب والے کے ساتھ رہے گا تو کباب پائے گا،اگر کسی کےپاس کباب ہی نہ ہوں تو کیا پائے گا؟ اور جب مولیٰ والے بنو گے تو اندھیرے خود بخود چھٹ جائیں گے، چمگادڑ سورج کا سامنا نہیں کرسکتا ، اندھیرا اور نور جمع نہیں ہوسکتا۔ جہاں اللہ تعالیٰ ہے وہاں گناہوں کے تقاضے مضمحل ہوجاتے ہیں ۔ اگر قرآن نازل ہوجاتا اور ہر ایک کے گھر پہنچ جاتا، تو کوئی بھی صحابی نہ بن سکتا۔صحابیت کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت ضروری ہے،قرآن راستہ ------------------------------