سفر نامہ ڈھاکہ و رنگون |
ہم نوٹ : |
اللہ تعالیٰ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھ لیا کہ اے میر ے اُمتی ، اے میری شفاعت کے اُمیدوار! میری شکل میں تجھ کو کیا عیب نظر آیا جو تو نے داڑھی نہیں رکھی؟ تو بولو کیا جواب دو گے؟ کس منہ سے کہو گے کہ اے نبی اللہ! میری شفاعت کر دیجیے؟ میرے ایک نوجوان مرید کا شعر ہے ؎ اگر داڑھی کے رکھ لینے سے چہرہ بد نما لگتا تو پھر داڑھی میرے سرکار کی سنت نہیں ہوتی دنیا ہی میں قیصر و کسریٰ کے دو سفیروں سے جن کی داڑھی منڈی ہوئی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکلیف سے منہ پھیر لیا تھا، تو اگر قیامت کے دن داڑھی منڈوانے والوں سے آپ نے منہ پھیر لیا تو شفاعت کیسے پاؤ گے؟ مغفرت کیسے ہوگی؟ مردوں کے لیے داڑھی زینت ہے۔ فرشتوں کی ایک جماعت ہے،جس کی تسبیح ہی یہ ہےسُبْحَانَ مَنْ زَیَّنَ الرِّجَالَ بِاللُّحٰی وَالنِّسَاءَ بِالذَّوَائِبِ؎پاک ہے وہ اللہ تعالیٰ جس نے مردوں کو داڑھی سے زینت دی اورعورتوں کو زینت دی چوٹی سے ، لمبے بالوں سے۔ پس اے رنگون کے نوجوانو! اور تمام مسلمانو ! ہمت کر لو، داڑھی رکھو، ان شاء اللہ! فائدے میں رہو گے۔مسلمان تو اللہ تعالیٰ پر جان دیتا ہے ، گال دینا کیا مشکل ہے؟ ہم سر سے پیر تک بندے ہیں، ہمارے جسم کا ہر جز بندہ ہے، لہٰذا ہمارے گال بھی بندہ ہیں ، ہمارے بال بھی بندہ ہیں۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ سارا جسم تو بندہ ہو اور ہمارے گا ل اور ہمارے بال بندگی سے آزاد ہو جائیں، اس لیے سر سے پیر تک اللہ تعالیٰ کے ہو جاؤ اورببانگِ دہل یہ شعر پڑھو ؎ نہیں ہوں کسی کا تو کیوں ہوں کسی کا ان ہی کا ان ہی کا ہوا جا رہا ہوں اگر قیامت کے دن رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھ لیا کہ ہماری سنت پر تم کیوں استرا چلاتے تھے؟تو کیا کہو گے ؟کہ میں بیوی کو خوش کرتا تھا،اپنا دل خوش کرتا تھا، معاشرہ اور سوسائٹی کو خوش کرتا تھا۔ تو اگر یہی جواب مل جائے کہ بلاؤ،اپنی بیوی کو جو ------------------------------