سفر نامہ ڈھاکہ و رنگون |
ہم نوٹ : |
|
جب عشاء کے بعدقیام گاہ پر بیعت اور زیارت کے لیے بہت سے احباب جمع تھے، تو قیام گاہ کے پڑوس میں رہنے والا ایک شخص آیااور ہال نما کمرے کے مرکزی دروازے کے قریب بیٹھ گیا ۔ اس کی ہیئت عجیب وحشت ناک تھی، کلین شیو تھا،سر کے بال اتنے لمبے کہ نصف کمر تک آتے تھے اور وہ بھی عورتوں کی طرح ربڑ سے باندھے ہوئے تھے، ہاتھوں میں کنگن اورا نگلیوں میں انگوٹھیاں اور تین سونے کے ہار گلے میں تھے اور چہرے سے عجیب وحشت اور نحوست ٹپک رہی تھی۔ پہلے دن وہ مجلس کے آخر تک ویسے ہی بیٹھا رہا ، غالباً یہ بدھ اور جمعرات کی درمیانی رات کا واقعہ ہے۔ دوسرے دن بندہ اس کو مغرب کے بعد جامع مسجد سورتی میں دیکھتا رہا کہ شاید وہ بیان سننے کے لیے آیا ہو لیکن وہ وہاں موجود نہیں تھا،لیکن جب عشاء کے بعد واپس قیام گاہ پر آئے اور بیعت ہونے لگی تو وہ پھر آیا ۔ بندے کو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ وہ بھی کونے میں بیعت کے لیے پھیلائی ہوئی چادر کا پلہ پکڑے ہوئے تھا ، اس کے بعد شایدوہ کبھی بھی مغرب کے بیان کے لیے جامع مسجد سورتی میں نہیں آیا، لیکن عشاء کے بعد قیام گاہ پر روزانہ آتا تھا۔ آخری دن اتوار کو وہ صبح صبح آیا، تو حضرت والا اس کو اپنے ساتھ چند منٹوں کے لیے اپنے حجرۂ مخصوصہ میں لے گئے۔ اس نے حضرت کے ساتھ خلوت میں چند منٹ گزارے پھر وہاں سے نکلا اور سیدھا چلا گیا۔ شام کو عصر کے وقت جب ہماری روانگی تھی تو وہ آیا،اس کے بال سنت کے مطابق بنے ہوئے تھے، نہ اس کے گلے میں کوئی ہار تھا اورنہ ہاتھوں میں کوئی کنگن اور نہ انگوٹھیاں تھیں، تھوڑی تھوڑی داڑھی اس کی بڑھی ہوئی تھی اور اس کا چہرہ نور سے جگمگا رہا تھا، اس کے چہرے کی تابانی قلب کے نورِیزدانی کی غمازی کررہی تھی۔ ہر ایک اس کی بدلی ہوئی کیفیت پر ششدر اور حیران تھا اور مجھے حضرت کا یہ شعر یاد آرہا تھا ؎ کسی اہلِ دل کی صحبت جو ملی کسی کو اخؔتر اسے آگیا ہے جینا اسے آگیا ہے مرنا