حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہو) تو پھر جانور رُک رُک کر چلتا ہے اور پیچھے رہ جاتا ہے (اس لیے ایمان کو تازہ کرتے رہو اور اسے عمدہ بناتے رہو)۔1 حضرت حیّہ بنتِ ابی حیّہؓکہتی ہیں کہ ایک دن عین دوپہر کے وقت ایک آدمی میرے پاس اندر آیا۔ میں نے کہا: اے اﷲ کے بندے! تمھیں کیا ضرورت پیش آگئی؟ انھوں نے کہا: میں اور میرا ایک ساتھی ہم دونوں اپنے اُونٹ ڈھونڈنے آئے ہیں۔ میرا ساتھی اُونٹ تلاش کرنے چلا گیا ہے اور میں یہاں سایہ میں آیا ہوں تاکہ کچھ دیر سائے میں بیٹھ جائوں اور کچھ پی بھی لوں۔ میں نے کھڑے ہو کر انھیں تھوڑی سی لسی پلائی اور انھیں پہچاننے کی کوشش کی۔ میں نے کہا: اے اﷲکے بندے! آپ کون ہیں؟ انھوں نے کہا: ابوبکر۔ میں نے کہا: وہی ابوبکر جو حضورﷺ کے خاص صحابی ہیں جن کا میں سن بھی چکی ہوں؟ انھوں نے کہا: جی ہاں۔ پھر میں نے انھیں بتایا کہ زمانۂ جاہلیت میں ہماری قبیلہ خثعم کے ساتھ لڑائی رہتی تھی اور ہم آپس میں بھی لڑتے رہتے تھے، لیکن اب اﷲ تعالیٰ نے ہمیں آپس میں اُلفت ومحبت نصیب فرما دی (یہ سب اسلام کی برکت ہے)۔ میں نے کہا: اے اﷲ کے بندے! لوگوں میں یہ اُلفت ومحبت کب تک رہے گی؟ انھوں نے فرمایا: جب تک امام سیدھے رہیں گے۔ میں نے پوچھا: امام کون ہوتے ہیں؟ انھوں نے کہا: کیا تم نے دیکھا نہیں کہ ہر قبیلہ میں ایک سر دار ہوتا ہے جس کے پیچھے لوگ چلتے ہیں اور اس کی بات مانتے ہیں؟ یہی وہ لوگ ہیں، جب تک یہ ٹھیک چلتے رہیں گے لوگوں میں تمام کام ٹھیک رہیں گے۔2 حضرت حارث بن معاویہؓ کہتے ہیں کہ میں (ملکِ شام سے) حضرت عمر خطّاب ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا تو مجھ سے حضرت عمر نے پوچھا: تم نے شام والوں کو کس حال میں چھوڑا؟ میں نے انھیں شام والوں کا حال بتایا تو انھوں نے اﷲ کا شکر ادا کیا اور اس کی تعریف کی۔ پھر فرمایا: شاید تم لوگ مشرکوں کے ساتھ بیٹھتے ہو؟ میں نے کہا: نہیںاے امیر المؤمنین! حضرت عمر نے فرمایا: اگر تم مشرکوں کے ساتھ بیٹھنے لگو گے تو تم ان کے ساتھ کھانے پینے لگ جائو گے، اور تم لوگ اس وقت تک خیر پر رہو گے جب تک تم یہ (ان کے ساتھ کھانے پینے کا) کام نہیں کرو گے۔1 حضرت عیاض ؓکہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓکو اس بات کا حکم دیا کہ وہ اپنا سارا لین دین کھال کے ایک ٹکڑے پر لکھ کر حضرت عمر کو پیش کریں۔ حضرت ابو موسیٰ کا ایک نصرانی منشی تھا، اس نے سارا حساب لکھ کر حضرت عمر کو پیش کیاجو حضرت عمر کو بہت پسند آیا۔ اور حضرت عمر نے فرمایا: اس کا حافظہ بڑا تیز ہے۔ (پھر اس منشی سے کہا:) ہمارے پاس ملکِ شام سے ایک خط آیا ہے، کیا تم چل کر مسجد میں ہمیں وہ خط پڑھ دو گے؟ حضرت ابو موسیٰ نے کہا: یہ تو یہ کام نہیں کر سکتا۔ حضرت عمر نے فرمایا:کیوں، کیا یہ جنبی ہے؟ حضرت ابو موسیٰ نے کہا: نہیں، یہ تو نصرانی ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ یہ سن کر حضرت عمرؓ نے مجھے ڈانٹا اور میری ران پر مار کر کہا: اسے یہاں سے نکال دو۔ پھر یہ آیت پڑھی: