حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اللہ تعالیٰ موسیٰ ؑ پر رحم فرمائے! انھیں تو اس سے بھی زیادہ ستایا گیا تھا لیکن انھوں نے صبر کیا تھا۔ ’’بخاری‘‘ اور’’مسلم‘‘ میں یہ روایت ہے کہ حضرت ابو سعیدؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ حضورﷺ کے پاس موجود تھے۔ آپ لوگوں میں کوئی چیز تقسیم فرما رہے تھے کہ اتنے میں بنوتمیم کا ایک آدمی ذُوالخُوَیْصَرہ آیا اور اس نے کہا: یا رسول اللہ! انصاف سے تقسیم فرمائیں۔ حضورﷺ نے فرمایا: تیراناس ہو! اگر میں انصاف نہیں کروں گا تو کون انصاف کرے گا؟ (اگر میں انصاف نہیں کروں گا) تو میں ناکا م وبرباد ہو جاؤں گا۔ جب میں انصاف نہیں کروں گا تو پھر اور کون کرے گا؟ حضرت عمر بن خطّابؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے اجازت دیں میں اس کی گردن اُڑا دوں۔ حضورﷺ نے فرمایا: نہیں، اسے چھوڑ دو۔ اس کے ایسے ساتھی ہیں کہ ان کے نماز، روزے کے مقابلہ میں تم اپنے نماز روزہ کو کم سمجھو گے۔ یہ لوگ قرآن پڑھیں گے لیکن قرآن ان کی ہنسلی سے آگے (ان کے دل کی طرف) نہیں جائے گا (یا قرآن ہنسلی سے آگے بڑھ کر اوپر اللہ کی طرف نہیں جائے گا)۔ اور یہ لوگ اسلام سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار کو لگ کر اس سے پار ہو کر آگے چلا جاتا ہے۔ تیر کے پھل کو دیکھا جائے تو اس میں کو ئی چیز نظر نہیں آئے گی، پھر اس کی تانت کو دیکھا جائے (جس سے پھل کو لکڑی پر مضبوط کیا جاتا ہے) تو اس میں بھی کوئی چیز نظر نہیں آئے گی، پھر اس کی لکڑی کو دیکھا جائے تو اس میں بھی کوئی چیز نظر نہیں آئے گی، پھر اس کے پر کو دیکھا جائے تو اس میں بھی کوئی چیز نظر نہیں آئے گی حالاںکہ یہ تیر اس شکار کی اوجھڑی اور خون میں سے گزر کر پار گیا ہے لیکن اس اوجھڑی اور خون کا اس میں کو ئی نشان نظر نہیں آئے گا۔ ان کی نشانی یہ ہے کہ ان میں ایک کالا آدمی ہوگا جس کے ایک بازو کا گوشت عورت کے پستان کی طرح یا گوشت کے ٹکڑے کی طرح ہلتا ہوگا۔ یہ لوگ اس وقت ظاہر ہوں گے جب کہ لوگوں میں اختلاف اور انتشار کا زور ہوگا۔ حضرت ابو سعید فرماتے ہیں: میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے یہ حدیث حضورﷺ سے سنی ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ان لوگوں سے حضرت علیؓ نے جنگ کی تھی میں بھی ان کے ساتھ تھا۔ حضرت علی نے اس آدمی کو لانے کا حکم دیا لوگ اسے ڈھونڈ کر حضرت علی کے پاس لے آئے اور حضورﷺ نے اس کی جو نشانی بتائی تھی وہ میں نے اس میں پوری طرح سے دیکھی۔1 بخاری ومسلم کی روایت میں ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ جب (منافقوں کا سردار) عبد اللہ بن اُبیّ مر گیا تو اس کے صاحب زادے (حضرت عبد اللہ بن عبد اللہ بن اُبیّ ؓ) نے نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: آپ مجھے اپنی قمیص دے دیں میںاس میں اپنے باپ کو کفناؤں گا، اور آپ اس کی نماز جنازہ پڑھائیں اور اس کے لیے استغفار فرمائیں۔ چناںچہ حضورﷺ نے انھیں اپنی قمیص دے دی اور فرمایا: جب جنازہ تیار ہوجائے تو مجھے خبر کر دینا میں