حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
حضورﷺ نے کسی مسلمان سے قطع تعلق کر لینے سے منع فرمایا ہے اور کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی کو تین دن سے زیادہ چھوڑے رکھے۔ جب ان حضرات نے (صلہ رحمی اور معاف کرنے کے) فضائل بار بار یاد دلائے اور مسلمان سے قطع تعلق کر لینے کی ممانعت کا بار بار ذکر کیا تو حضرت عائشہؓ ان دونوں کو سمجھانے لگیں اور رونے لگیں اور کہنے لگیں کہ میں نے نذر مان رکھی ہے اور نذر کو توڑنا بہت سخت ہے۔ لیکن وہ دونوں حضرات اِصرار کرتے رہے یہاں تک کہ حضرت عائشہؓ نے حضرت ابنِ زبیر سے بات کر ہی لی اور اپنی قسم کے توڑنے کے کفارے میں چالیس غلام آزاد کیے۔ اور جب انھیں اپنی یہ قسم یاد آتی تو اتنا روتیں کہ ان کا دوپٹہ آنسوؤں سے گیلا ہو جاتا۔1 حضرت عروہ بن زبیر ؓ فرماتے ہیں کہ حضورﷺ اورحضرت ابوبکرؓ کے بعد حضرت عائشہؓ کو تمام لوگوں میں سب سے زیادہ محبت حضرت عبد اللہ بن زبیر سے تھی (کیوںکہ حضرت عائشہ نے اپنے اس بھانجے کی تربیت خود کی تھی) اور وہ بھی حضرت عائشہ کے ساتھ تمام لوگوں سے زیادہ اچھا سلوک کرتے تھے۔ حضرت عائشہؓ کی عادت یہ تھی کہ جو کچھ بھی آتا تھا وہ سارے کا سارا صدقہ کر دیتی تھیں کچھ بچا کر نہیں رکھتی تھیں۔ اس پر حضرت ابنِ زبیر نے کہا: حضرت عائشہ کے ہاتھوں کو اتنا زیادہ خرچ کرنے سے روکنا چاہیے۔ حضرت عائشہ نے فرمایا: کیا میرے ہاتھوں کو روکا جائے گا؟ میں بھی قسم کھاتی ہوں کہ میں ان سے کبھی بات نہیں کروں گی۔ حضرت ابنِ زبیر (بہت پریشان ہوئے اور) انھوں نے قریش کے بہت سے آدمیوں کو اور خاص طور پر حضورﷺ کے ننھیال والوں کو اپنا سفارشی بنا کر حضرت عائشہ کی خدمت میں بھیجا، لیکن حضرت عائشہ نے کسی کی سفارش قبول نہ کی۔ آخر حضورﷺ کے ننہیال میں سے قبیلہ بنو زہرہ کے حضرت عبد الرحمن بن اَسود بن عبدِیغوث اور حضرت مِسْوَر بن مخرمہؓ نے حضرت ابنِ زبیر سے کہا: جب ہم اجازت لے کر اندر جانے لگیں تو تم پردہ کے اندر چلے جانا۔ چناںچہ انھوں نے ایسا ہی کیا (آخر حضرت عائشہؓ ان سے راضی ہوگئیں اور انھوں نے اپنی قسم توڑ دی)۔ پھر حضرت ابنِ زبیر نے حضرت عائشہؓ کی خدمت میں دس غلام بھیجے جنھیں حضرت عائشہ نے (قسم توڑنے کے کفارے میں) آزاد کر دیا اور بعد میں بھی اورغلام آزاد کرتی رہیں یہاں تک کہ چالیس غلام آزاد کر دیے اور فرمایا: (چالیس غلام آزاد کر کے بھی اطمینان نہیں ہو رہا ہے اس لیے) اچھا تو یہ تھا کہ میں نذر میں اپنے ذمہ کوئی عمل مقرر کر لیتی تاکہ اسے کر کے میں مطمئن ہو جاتی۔ (مثلاً یوں کہتی: اگر میں ابنِ زبیر سے بات کروں تو دو غلام آزاد کروں گی تو اب دو آزاد کر کے میں مطمئن ہو جاتی۔ میں نے تو صرف یہ کہا کہ میں نذر مانتی ہوں کہ ابنِ زبیر سے بات نہیں کروں گی اور اس میں عمل کی کوئی مقدار مقرر نہیں کی)1