حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
فرمایا: سب سے بڑی عقل مندی تقویٰ اختیار کرنا ہے۔ پھر آگے اور حدیث ذکر کی جس میںیہ مضمون بھی ہے کہ اگلے دن صبح کو حضرت ابو بکر بازار جا نے لگے تو ان سے حضرت عمر ؓ نے پوچھا: آپ کہاں جا رہے ہیں؟ انھوں نے فرمایا: بازار۔ حضرت عمر نے کہا: اب آپ پر اتنی بڑی ذمہ داری (خلافت کی وجہ سے) آگئی ہے کہ جس کی وجہ سے اب آپ بازار نہیں جا سکتے۔ (سارا وقت خلافت کی ذمہ دار یوں میں لگائیں گے تو پھر یہ ذمہ داریاں پوری ہو سکیں گی) حضرت ابو بکر نے فرمایا: سبحا ن اللہ! اتنا لگنا پڑے گا کہ اہل وعیال کے لیے کمانے کا وقت نہ بچے (تو پھر انھیںکہاںسے کھلاؤں گا؟) حضرت عمر نے کہا: ہم (آپ کے لیے اور آپ کے اہل وعیا ل کے لیے بیت المال میں سے) مناسب مقدار میں وظیفہ مقرر کر دیتے ہیں۔ حضرت ابو بکر نے فرمایا: عمر کا ناس ہو! مجھے ڈر ہے کہ کہیں مجھے اس مال میں سے کچھ لینے کی گنجایش نہ ہو۔ چناںچہ (مشورہ سے ان کا وظیفہ مقرر ہو ا اور) انھوں نے دوسال سے زائد عرصہ (خلافت) میں آٹھ ہزار درہم لیے۔ جب ان کی موت کا وقت آیا تو فرمایا: میں نے عمر سے کہا تھا مجھے ڈر ہے کہ مجھے اس مال میں سے لینے کی گنجایش بالکل نہیں ہے، لیکن عمر اس وقت مجھ پر غالب آگئے اور مجھے ان کی بات مان کر بیت المال میں سے وظیفہ لینا پڑا، لہٰذا جب میں مرجاؤں تو میرے مال میں سے آٹھ ہزار لے کر بیت المال میں واپس کر دینا۔ چناںچہ جب وہ آٹھ ہزار (حضرت ابو بکر کے انتقال کے بعد) حضرت عمر کے پاس لائے گئے تو آپ نے فرمایا: اللہ ابوبکر پر رحم فرمائے! انھوں نے اپنے بعد والوں کو مشکل میں ڈال دیا (کہ آدمی اپنی ساری جان اور سارا مال دین پر لگا دے اور دنیا میں کچھ نہ لے)۔1 حضرت ابو بکر بن حفص بن عمر ؓکہتے ہیں: حضرت عائشہ ؓ حضرت ابوبکر ؓ کی خدمت میں آئیں اس وقت آپ کو نزع کی تکلیف ہو رہی تھی اور آپ کا سانس سینے میں تھا۔ یہ حالت دیکھ کر حضرت عائشہ ؓ نے یہ شعر پڑھا: لَعَمْرُکَ مَا یُغْنِي الثَّرَائُ عَنِ الْفَتٰی إِذَا حَشْرَجَتْ یَوْمًا وَضَاقَ بِھَا الصَّدْرُ تیری جان کی قسم! مال اور قوم کی کثرت نوجوان کو اس دن کوئی فائدہ نہیں دے سکتی جس دن سانس اُکھڑنے لگے اور سینہ گھٹنے لگے۔ حضرت ابو بکر نے حضرت عائشہ کی طرف غصہ سے دیکھا اور فرمایا: اے اُمّ المؤمنین! یہ بات نہیں ہے، یہ تو وہ حالت ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کیا ہے: {وَجَآئَ تْ سَکْرَۃُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ ط ذٰلِکَ مَا کُنْتَ مِنْہُ تَحِیْدُ o}2 اور موت کی سختی (قریب) آپہنچی، یہ (موت) وہ چیز ہے جس سے تو بِدکتا تھا۔ میں نے تمھیں ایک باغ دیا تھا لیکن میرا دل اس سے مطمئن نہیں، اس لیے تم اسے میری میراث میں واپس کر دو۔ میں نے کہا: بہت اچھا۔ اور پھر میں نے وہ باغ واپس کر دیا۔ پھر حضرت ابو بکر نے فرمایا: ہم جب سے مسلمانوں کے خلیفہ بنے