حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حضرت حسن ؓکہتے ہیں: ایک مر تبہ حضرت عمر ؓ نے لوگوں میں مال تقسیم کیا تو بیت المال میںتھوڑا سا مال بچ گیا۔ حضرت عباس ؓ نے حضرت عمر اور دوسرے لوگوںسے کہا: ذرا مجھے یہ بتاؤ کہ اگر تم لوگوں میں حضرت موسیٰ ؑ کے چچا ہوتے تو کیا تم ان کا اِکرام کرتے؟ سب نے کہا: جی ہاں کرتے۔ حضرت عباس نے کہا: میں اِکرام کا ان سے زیادہ مستحق ہوں،کیوںکہ میں تمہارے نبی کریم ﷺ کا چچا ہوں۔ حضرت عمر نے لوگوں سے (حضرت عباس کو یہ بچا ہوا مال دینے کے بارے میں) بات کی۔ سب نے راضی ہو کر وہ مال حضرت عباس کو دے دیا۔1 حضرت عائشہ ؓ فر ماتی ہیں: ایک زنانہ عطر دان حضرت عمر بن خطّاب ؓ کے پاس آیا۔ آپ کے ساتھی اسے دیکھنے لگے کہ یہ کسے دیا جائے؟ حضرت عمر نے فرمایا: کیا آپ لوگ اجازت دیتے ہیںکہ میں یہ عطر دا ن حضرت عائشہ ؓ کے پاس بھجوادوں، کیوںکہ حضورﷺ کو ان سے بہت زیادہ محبت تھی؟ سب نے کہا: جی ہاں! اجازت ہے۔ چناںچہ جب وہ عطردان حضرت عائشہ ؓ کے پاس پہنچا تو انھوں نے اسے کھولا اور انھیں بتایا گیا کہ یہ حضرت عمر بن خطّاب نے آپ کے لیے بھیجا ہے۔ حضرت عائشہ نے کہا: حضورﷺ کے بعد (حضرت عمر) ابنِ خطّاب پر کتنی زیادہ فتوحات ہو رہی ہیں؟ اے اللہ! مجھے حضرت عمرکے عطایا کے لیے اگلے سال تک زندہ نہ رکھیو۔2 حضرت انس بن مالک ؓ فرماتے ہیں: حضرت ابو بکر ؓ نے مجھے صدقات وصول کرنے کا عامل بنا کر ایک علاقہ میں بھیجا۔ جب میں واپس آیا تو حضرت ابو بکر انتقال کرچکے تھے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: اے انس! کیا تم ہمارے پاس (صدقات کے) جانور لائے ہو؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: وہ جانور تو ہمارے پاس لے آؤ اور (جو) مال (تم لائے ہو وہ) تمہارا ہے۔ میں نے کہا: وہ مال تو بہت زیادہ ہے۔ حضرت عمر نے فرمایا: چاہے بہت زیادہ ہو وہ تمہارا ہے۔ اور وہ چار ہزار تھے۔ چناںچہ میں نے وہ مال لے لیا اور اس طرح میںمدینہ والوں میں سب سے زیادہ مال دار ہوگیا۔3 حضرت عبد اللہ بن عبید بن عمیر ؓ کہتے ہیں: ایک مرتبہ لوگ حضرت عمر ؓ کے سامنے عطایا لے رہے تھے (عطایا وہ مال ہے جس کی نہ مقدار مقررہو اور نہ اس کے دینے کا وقت) کہ اتنے میں حضرت عمر نے اپنا سر اٹھا یا تو ان کی نظر ایک آدمی پر پڑی جس کے چہرے پر تلوار کے زخم کا نشان تھا۔ حضرت عمر نے اس نشان کے بارے میں اس سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ وہ ایک غزوہ میں گیا تھا وہاں اسے دشمن کی تلوار سے یہ زخم لگا تھا۔ حضرت عمرنے فرمایا: اسے ایک ہزار گن کر دے دو۔ چناںچہ اسے ایک ہزار درہم دے دیے گئے۔ پھر حضرت عمر اس مال کو تھوڑی دیر الٹتے پلٹتے رہے۔ اس کے بعدفرمایا: اسے ایک ہزار درہم اور گن کر دے دو۔ چناںچہ اس آدمی کو ایک ہزار درہم اور دے دیے گئے۔ یہ بات حضرت عمر نے چار مرتبہ فرمائی اور ہر مرتبہ اسے ایک ہزار دیے گئے۔ حضرت عمر کی اس کثرتِ عطا سے اس آدمی کو ایسی شرم آئی کہ وہ