حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کا ہے اور تمہارا جذبہ اللہ سے بدلہ لینے کا ہے۔ ابو بکر کا جذبہ اعلیٰ وافضل ہے) جو تم دونوں کے بولوں میں فرق ہے وہی تم دونوں کے صدقوں میں فرق ہے۔ ( قبول تو دونوں ہوئے، لیکن ابو بکر کا صدقہ زیادہ اخلاص اور قربانی والا ہے کہ ان کی توجہ اللہ کو اور دینے کی طرف ہے) 1 حضرت ابنِ عمر ؓ فرماتے ہیں: ایک مرتبہ حضور ﷺ نے فرمایا: کون ہے جو بئرِ رُوْمہ (مدینہ کے ایک کنوئیں کا نام) خرید کر مسلمانوں کے لیے صدقہ کر دے؟ قیامت کے دن سخت پیاس کے وقت اللہ تعالیٰ اس کو پانی پلائیں گے۔ چناںچہ یہ فضیلت سن کر حضرت عثمان بن عفّان ؓ نے وہ کنواں خرید کر مسلمانوں کے لیے صدقہ کر دیا۔2 حضرت بشیر اسلمی ؓ فرماتے ہیں: جب مہاجرین مدینہ آئے تو ان کو یہاں کا پانی موافق نہ آیا ۔ بنوغِفار کے ایک آدمی کا کنواں تھا جس کا نام رُوْمہ تھا۔ وہ اس کنوئیں کے پانی کی ایک مَشک ایک مُد (تقریباً ۱۴ چھٹانک) میں بیچتا تھا۔ حضور ﷺ نے اس کنوئیں والے سے فرمایا: تم میرے ہاتھ یہ کنواں بیچ دو تمہیں اس کے بدلہ میں جنت میں ایک چشمہ ملے گا۔ اس نے کہا: یارسول اللہ! میرے اور میرے اہل وعیال کے لیے اس کے علاوہ اور کوئی آمدنی کا ذریعہ نہیں ہے اس لیے میں نہیں دے سکتا۔ یہ بات حضرت عثمان ؓ کو پہنچی تو انھوں نے وہ کنواں پینتیس ہزار درہم میں خرید لیا۔ پھر حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: یا رسول اللہ! جیسے آپ نے اس سے جنت کے چشمے کا وعدہ فرمایا، تو کیا اگر میں اس کنوئیں کو خرید لوں تو مجھے بھی جنت میں وہ چشمہ ملے گا؟ حضور ﷺ نے فرمایا: ہاں، بالکل ملے گا۔ حضرت عثمان نے فرمایا: میں نے وہ کنواں خرید کر مسلمانوں کے لیے صدقہ کر دیا ہے۔1 حضرت طلحہ ؓ کی بیوی حضرت سعدیٰ ؓ فرماتی ہیںکہ ایک دن حضرت طلحہ نے ایک لاکھ درہم صدقہ کیے۔ پھر اس دن ان کو مسجد میں جانے سے صرف اس وجہ سے دیر ہوگئی کہ میں نے ان کے کپڑے کے دونوں کناروں کو ملا کر سیا۔ (لاکھ درہم سب دوسروں کو دے دیے، اپنے اوپر کچھ نہ لگایا) 2 اورحصہ دوم صفحہ ۱۳۸ پرگزر چکا ہے کہ حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓ نے حضور ﷺ کے زمانہ میں اپنا آدھا مال چار ہزار (درہم) صدقہ کیے، پھر چالیس ہزار صدقہ کیے، پھر چالیس ہزار دینار صدقہ کیے۔ حضرت ابولبابہ ؓ فرماتے ہیں: جب اللہ تعالیٰ نے میری توبہ قبول فرمائی (ان سے غزوۂ بنو قریظہ یا غزوۂ تبوک کے وقت غلطی سرزد ہوئی تھی) تو میں نے حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: یا رسول اللہ! میں اپنی قوم کا وہ گھر چھوڑنا چاہتا ہوں جس میں مجھ سے یہ گناہ ہوا ہے، اور میں اپنا سارا مال اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے لیے صدقہ کرنا چاہتا ہوں۔ حضور ﷺ نے فرمایا: اے ابو لبابہ! تہائی مال کا صدقہ تمہارے لیے کافی ہے۔ چناںچہ میں نے تہائی مال صدقہ