حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سامان اور غلہ خرید لیں، اور باقی دینار سنبھال کر رکھ لیں آیندہ کام آئیں گے۔ حضرت سعید نے کہا: میں تمہیں اس سے بہتر صورت نہ بتا دوں کہ ہم یہ مال ایک تاجر کو دے دیتے ہیں جو اس سے ہمارے لیے تجارت کرتا رہے، ہم اس کا نفع کھاتے رہیں اور ہمارے اس سرمائے کی ذمہ داری بھی اس پر ہوگی؟ ان کی بیوی نے کہا: پھر تو یہ ٹھیک ہے۔ چناںچہ انھوں نے سالن کا سامان اور غلہ خریدا، اور دو اُونٹ اور دوغلام خریدے۔ غلاموں نے ان اُونٹوں پر ضرورت کا سارا سامان اکھٹا کرلیا اور انھوں نے یہ سب کچھ مسکینوں اور ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیا۔ کچھ ہی عرصہ کے بعد ان کی بیوی نے ان سے کہا: کھانے پینے کا سامان ختم ہوگیا ہے آپ اس تاجر کے پاس جائیں اور جو نفع ہوا ہے اس میں سے کچھ لے کر ہمارے لیے کھانے پینے کا سامان خرید لیں۔ حضرت سعید خاموش رہے۔ اس نے دوبارہ کہا۔ یہ پھر خاموش رہے۔ آخر اس نے تنگ آکر ان کو ستانا شروع کیا۔ اس پر انھوں نے دن میں گھر آنا چھوڑ دیا صرف رات کو گھر آتے ۔ ان کے گھروالوں میں ایک آدمی تھاجو اُن کے ساتھ گھر آیا کرتا تھا، اس نے ان کی بیوی سے کہا: تم کیا کر رہی ہو؟ تم ان کو بہت تکلیف پہنچا چکی ہو، وہ توسارا مال صدقہ کرچکے ہیں۔ یہ سن کر حضرت سعید کی بیوی کو سارے مال کے صدقہ کرنے پر اتنا افسوس ہوا کہ وہ رونے لگی۔ ایک دن حضرت سعید اپنی بیوی کے پاس گھر آئے اور اس سے کہا: ایسے ہی آرام سے بیٹھی رہو۔ میرے کچھ ساتھی تھے جو تھوڑا عرصہ پہلے مجھ سے جداہوگئے ہیں (اس دنیا سے چلے گئے ہیں)۔ اگر مجھے ساری دنیا بھی مل جائے تو بھی مجھے ان کا راستہ چھوڑنا پسند نہیں ہے۔ اگر جنت کی خوب صورت حوروں میں سے ایک حور آسمانِ دنیا سے جھانک لے تو ساری زمین اس کے نور سے روشن ہوجائے، اور اس کے چہرے کا نور چاند وسورج کی روشنی پر غالب آجائے، اور جو دوپٹہ اسے پہنایا جاتا ہے وہ دنیا اور مافیہا سے زیادہ قیمتی ہے۔ اب میرے لیے یہ تو آسان ہے کہ ان حوروں کی خاطر تجھے چھوڑ دوں، لیکن تیری خاطر ان کو نہیں چھوڑ سکتا۔ یہ سن کر وہ نرم پڑگئی اور راضی ہوگئی۔1 ابو نعیم نے ہی اسی واقعہ کو حضرت عبدالرحمن بن سابط جمحی ؓسے نقل کیا ہے، اور اس میں یہ مضمون ہے کہ جب حضرت سعید بن عامر ؓ کو تنخواہ ملتی تو گھروالوں کے گزارے کا سامان خرید لیتے اور باقی کو صدقہ کر دیتے۔ تو ان کی بیوی ان سے کہتی: آپ کی باقی تنخواہ کہاں ہے؟ وہ کہتے: میں نے وہ قرض دے دی ہے۔ (ان کا یہ طرزِ عمل دیکھ کر) کچھ لوگ ان کے پاس آئے اور ان سے انھوں نے کہا: آپ کے گھر والوں کا آپ پر حق ہے، آپ کے سسرال والوں کا آپ پر حق ہے۔ تو حضرت سعید نے کہا: میں نے ان کے حقوق کی ادائیگی میں کبھی کسی کو اُن پر ترجیح نہیں دی ہے۔ میں موٹی آنکھوں والی حوریں حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ تو میں کسی بھی انسان کو اس طرح خوش کرنا نہیں چاہتا کہ اس سے حوروں کے ملنے میں