حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کہ میرے گھر والوں کا کوئی خادم نہیں ہے۔ اس لیے میں خود آٹا گوندھتا ہوں، پھر اس انتظار میں بیٹھتا ہوں کہ آٹے میں خمیر پیدا ہوجائے، پھر میں روٹی پکاتا ہوں، پھر وضو کر کے گھر سے باہر ان لوگوں کے پاس آتا ہوں۔ حضرت عمر نے فرمایا: تمہیں ان سے او ر کیا شکایت ہے؟ انہو ں نے کہا: یہ رات کو کسی کی بات نہیں سنتے۔ حضرت عمر نے کہا: (اے سعید!) آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟ حضرت سعید نے کہا: اس کی وجہ بتانا بھی مجھے پسند نہیں ہے۔ بات یہ ہے کہ میں نے دن اور رات کو تقسیم کیا ہے۔ دن ان لوگوں کو دیا ہے اور رات اللہ تعالیٰ کو۔ حضرت عمر نے فرمایا: تمہیں ان سے او رکیا شکایت ہے؟ انھوں نے کہا: مہینے میں ایک دن یہ ہمارے پاس باہر نہیں آتے۔ حضرت عمر نے فرمایا: آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟ حضرت سعید نے کہا: نہ تو میرے پاس کوئی خادم ہے جو میرے کپڑے دھو دے، اور نہ میرے پاس اور کپڑے ہیں جنھیں پہن کر میں باہر آسکوں۔ اس لیے میں اپنے کپڑے دھوتا ہوں، پھر ان کے سوکھنے کا انتظار کرتا ہوں، جب سوکھ جاتے ہیں تو وہ موٹے ہونے کی وجہ سے سخت ہوجاتے ہیں اس لیے میں ان کو رَگڑ رَگڑ کر نرم کرتا ہوں۔ سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے، پھر انھیں پہن کر شام کو ان لوگوں کے پاس باہر آتا ہوں۔ حضرت عمر نے پوچھا: تمہیں ان سے اور کیا شکایت ہے؟ انھوں نے کہا: انھیں کبھی کبھی بے ہوشی کا دورہ پڑجاتا ہے۔ حضرت عمر نے فرمایا: اس بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟ حضرت سعید نے کہا: حضرت خبیب اَنصاری ؓ کی شہادت کے وقت میں مکّہ میں موجود تھا۔ پہلے قریش نے ان کے گوشت کو جگہ جگہ سے کاٹا پھر ان کو سولی پر لٹکایا او رکہا: کیا تم یہ پسند کرتے ہو کہ تمہاری جگہ محمد (ﷺ) ہوں؟ (تمہاری جگہ ان کو سولی دے دی جائے؟) حضرت خبیب ؓ نے کہا: اللہ کی قسم! مجھے تو یہ بھی پسند نہیں ہے کہ میں اپنے اہل وعیال میں ہوں اور (اس کے بدلہ میں) حضرت محمد ﷺ کو ایک کانٹا چبھے۔ اور پھر (حضور ﷺ کی محبت کے جوش میں آکر) زور سے پکارا: یامحمد! جب بھی مجھے وہ دن یاد آتا ہے اور یہ خیال آتا ہے کہ میں نے اس حالت میں ان کی مدد نہیں کی اور میں اس وقت مشرک تھا، اللہ تعالیٰ پر ایمان نہیں لایاتھا، تومیرے دل میں زور سے یہ خیال پیدا ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے اس گناہ کو کبھی معاف نہیں فرمائیں گے۔ بس اس خیال سے مجھے بے ہوشی کا وہ دورہ پڑجاتا ہے۔ حضرت عمر نے یہ جوابات سن کر فرمایا: تمام تعریفیںاس اللہ کے لیے ہیں جس نے میری فراست کو غلط نہیں ہونے دیا۔ پھر حضرت عمر نے ان کے پاس ہزار دینار بھیجے اور فرمایا: انھیں اپنے کام میں لے آؤ۔ اس پر ان کی بیوی نے کہا: تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمیں آپ کی خدمت سے بے نیاز کر دیا۔ حضرت سعید نے کہا: کیا تم اس سے بہتر