ملفوظات حکیم الامت جلد 24 - یونیکوڈ |
مصلحت کہا جا سکتا تھا اس پر بھی جب حضرت موسیؑ نے ٹوکا تو اس وقت فرمایا ھذا فراق بینی و بینک یعنی اب ہمارے اور تمھارے درمیان جدائی کا موقع آ گیا ۔ دیکھئے اس پورے واقعہ میں شریعت کے احترام کا دونوں طرف سے کس طرح اہتمام کیا گیا ہے ۔ اب جاہل مدعیان تصوف نے اس واقعہ کا یہ نتیجہ نکال رکھا ہے کہ شریعت اور چیز ہے طریقت اور چیز ۔ جو چیزیں شریعت میں حرام ہیں وہ طریقت میں جائز ہو سکتی ہیں ۔ معاذ اللہ یہ کھلا ہوا انکار شریعت ہے ۔ طریقت کی حقیقت شریعت پر عمل کرنے سے زیادہ کچھ نہیں ۔ جو طریقت شریعت کے خلاف ہو وہ الحاد و زندقہ ہے ۔ رہا یہ معاملہ کہ اس واقعہ میں حضرت خضرؑ نے خلاف شرع کام کو کیسے اختیار کر لیا جس پر موسیؑ کو اعتراض کرنا پڑا ۔ اس کا سبب یہ ہے کہ حضرت خضرؑ بھی اللہ کے نبی اور صاحب وحی تھے وہ اللہ تعالی کی طرف سے وحی پا کر اس پر عمل کر رہے تھے اور شریعت کے مقررہ قانون میں خود وحی الہی کے ذریعہ تبدیلی اور استثنائی صورتیں ہونا کوئی امر مستعبد نہیں مگر حضرت موسیؑ کو اس وحی کی خبر نہ تھی جس نے حضرت خضرؑ کے لئے شریعت کے عام قاعدہ سے اس واقعہ کو مستثنی کر دیا تھا ۔ اس لئے انہوں نے ضابطہ شریعت کے مطابق اس پر اعتراض کرنا ضروری سمجھا ۔ حضرت یوسفؑ کے واقعہ میں جو بھائیوں کی طرف چوری منسوب کرنا مذکور ہے اگرچہ انہوں نے چوری نہیں کی تھی ۔ ایسی حالت میں ان کو چور قرار دینا شرعا جائز نہیں تھا ۔ اس کی بھی یہی توجیہہ ہو سکتی ہے کہ حضرت یوسفؑ صاحب وحی ہیں ۔ ان کو بطور استثناء یہ اجازت مل گئی ہو گی ۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ یہ شکل صرف اسی وقت ہو سکتی ہے جبکہ ایسا کرنے والا نبی اور صاحب وحی ہو ۔ کوئی ولی صاحب کشف و الہام ایسا ہرگز نہیں کر سکتا کیونکہ کشف و الہام کوئی حجت شرعی نہیں اس کے ذریعہ شریعت کے کسی قاعدہ میں ترمیم یا استثناء نہیں ہو سکتا ۔ جاہل صوفیوں نے