ملفوظات حکیم الامت جلد 24 - یونیکوڈ |
|
دیو بند میں ہماری عادت یہ تھی کہ تراویح کے بعد کچھ احباب کا اجتماع ہو جاتا ۔ چائے نوشی کی دوستانہ مجلس کچھ دیر رہتی تھی تھانہ بھون میں جب ہم دوسرا قرآن سننے کے بعد واپس آتے تو خانقاہ میں اپنے حجرہ میں جس میں احقر اور مولانا محمد طیب صاحب مقیم تھے کچھ دیر اس قسم کی مجلس رہتی ۔ خانقاہ میں قانون یہ تھا کہ عشاء کے بعد سے رات کے تین بجے تک کسی کو ذکر جہر یا بلند آواز سے تلاوت کی بھی اجازت نہیں تھی تا کہ آخر رات میں بیدار ہونے والوں کو تکلیف نہ ہو ۔ احباب کی مجلس آ رائی کا تو وہاں کوئی تصور ہی نہ تھا ۔ اسی لئے عشاء کے بعد سے خانقاہ میں ایک سناٹا ہو جاتا تھا اس میں ہماری یہ آپس کی گفتگو بھی کافی دور تک پہنچ جاتی تھی چونکہ متنظمین خانقاہ کو یہ معلوم تھا کہ حضرت قدس سرہ ہم دونوں کی خاص رعایت فرماتے ہیں اس لئے ایک دو روز تو ہماری اس حرکت پر صبر کیا مگر تیسرے روز خادم خانقاہ نے کچھ فاصلہ پر کھڑے ہو کر آواز سے کہا کہ عشاء کے بعد آواز سے باتیں کرنا خانقاہ میں ممنوع ہیں ۔ اس وقت ہمیں اپنی غلطی پر تنبہ ہوا ۔ اور نماز سے فراغت کے بعد خاموش لیٹ جانے کی عادت ڈالنا پڑی ۔ خانقاہ تھانہ بھون میں یہ دستور دیکھا اور برتا ۔ اس کے بعد حضرت فاروق اعظم اور عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما سے یہ روایات نظر سے گزریں کہ فاروق اعظم عشاء کے بعد جاگنے والوں اور بے ضرورت باتیں کرنے والوں کو فرمایا کرتے تھے کہ جاؤ سو جاؤ " لعلکم ترزقون صلوۃ ،، یعنی سویرے سونے کے نتیجہ میں شاید تمھیں آخر شب کی نماز تہجد نصیب ہو جائے ۔ اس طرح کا قول حضرت عائشہ صدیقہ سے بھی منقول ہے ۔ اب اس معمولی سی بات کے دور رس اثرات پر غور کیجئے جو شخص اس ماحول میں رہے گا وہ تہجد کا کیسے پانبد نہ جائیگا ۔ اور صبح کی نماز و جماعت کی پابندی تو ایسی ہو جائے گی ۔ کہ اس کے خلاف کا احتمال ہی نہ رہے گا ۔ آج کل ہم جس ماحول میں رہتے ہیں اس میں آدھی رات تک یہ معلوم ہوتا ہے کہ ابھی رات ہی نہیں ہوئی ۔ ایک دوست کہتے ہیں کہ کراچی میں جب رات کے بارہ بجتے ہیں تو معلوم ہوتا