ملفوظات حکیم الامت جلد 24 - یونیکوڈ |
|
پھر فرمایا کہ دونوں بزرگ ہمارے مقتداء اور پیشوا ہیں ۔ ان میں سے جس کی رائے پر بھی کوئی عمل کرے خیر ہی خیر ہے ۔ لیکن تمہارے متعلق میرا مشورہ یہ ہے کہ تم ضرور اس فن کو پڑھو اور محنت سے پڑھو تا کہ اس کا بطلان تم پر خود واضح ہو جائے ۔ مجھے امید ہے کہ انشاء اللہ تمھیں وہ ضرر نہ ہو گا جس کا خطرہ حضرت گنگوہیؒ کے پیش نظر تھا ۔ پھر فرمایا کہ ایک مصلحت یہ بھی ہے کہ اس وقت تمام مدارس اسلامیہ میں اس فن کی تعلیم کا سلسلہ جاری ہے اگر تم نے یہ فن نہ پڑھا فلفسہ جاننے والے علماء کے سامنے ایک مرعوبیت کا اثر تم پر رہے گا ۔ اور سمجھ کر پڑھ لیا تو یہ مرعوبیت بھی نہ رہے گی ۔ اور انشاء اللہ تعالی اس کے غلط نظریات کا بطلان تمھیں پوری طرح معلوم ہو جائے گا ۔ عمر کی یہ پہلی تعلیم تھی جو حضرتؒ سے حاصل کی اور واپس آ کر میبذی کا سبق شروع کیا پھر صدرا شمس بازغہ وغیرہ فلسفہ کی تمام درسی کتابیں پڑھیں ۔ پھر قدرت نے یہ موقع بھی نصیب فرمایا کہ ہمارے استاذ محترم حضرت مولانا سید محمد انور شاہ صاحبؒ نے کچھ طلباء کو فلسفہ جدید پڑھانے کا وعدہ کر لیا تو احقر اس کے درس میں بھی شریک ہوا ۔ اور یہ واقعہ ہے کہ مجھے فلسفے کے کسی مسئلے میں کبھی کوئی اشکال پیش نہیں آیا اور حضرتؒ کی پیش گوئی کے مطابق اس کے غلط نظریات کا بطلان روز روشن کی طرح واضح ہوتا چلا گیا ۔ 1335 ھ میں احقر کا دورہ حدیث ہوا کچھ فنون کی کتابیں باقی تھیں جو 1336 ھ میں پوری کیں ۔ اسی سال حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب مہتمم دار العلوم نے چند اسباق پڑھانے کیلئے بھی مجھے سپرد فرما دیئے ۔ حضرت والد ماجدؒ کی رائے اول سے یہ تھی کہ علوم عربیہ کے نصاب سے فراغت کے بعد کسی بزرگ کی خدمت و صحبت میں رہ کر تزکیہ باطن اور ذکر اللہ کے بغیر علوم ظاہرہ بے روح رہتے ہیں یہ ضروری ہے ۔ اس وقت حضرت شیخ الہندؒ تو مالٹہ جیل میں اسیر تھے ۔ حضرت مولانا خلیل احمد صاحبؒ سہارنپوری بھی ہندوستان میں تشریف نہ رکھتے تھے ۔ دو بزرگوں پر نظر پڑتی تھی ایک حضرت مولانا