ملفوظات حکیم الامت جلد 24 - یونیکوڈ |
|
ظہر کی اذان پر حضرت حکیم الامتہ قدس سرہ وضو کے لئے حوض پر تشریف لائے تو والد صاحب نے وہاں ملاقات کی چونکہ والد صاحب حضرت کے ہم سبق تھے بے تکلف ملاقات دیکھنے کے قابل تھی والد صاحب نے پہلی ہی ملاقات میں فرما دیا کہ اس وقت میرے آ نے کا سبب یہ لڑکا ہے میں آ گے بڑھا حضرت نے نہایت شفقت سے مجھے سینے سے لگا کر سر پر ہاتھ رکھا ، والد صاحب نے یہ بھی کہہ دیا کہ یہ یہاں آتا ہوا اسلئے ڈرتا تھا کہ یہاں بہت قواعد و ضوابط ہیں ان کی پابندی کیسے ہو گی ۔ حضرت نے نہایت شفقت سے فرمایا کہ بھائی مجھے تو خوامخواہ لوگوں نے بد نام کیا ہے میں از خود کوئی قاعدہ ضابطہ نہیں بناتا ۔ لوگوں کی غلط روش نے مجھے مجبور کر دیا کہ آ نے والوں کو کسی وقت اور قاعدہ کا پابند کراؤں ورنہ یہ تو مجھے کسی وقت ایک دفعہ اللہ کا نام بھی نہ لینے دیں دوسرے کام اور آرام کا تو ذکر کیا ۔ پھر فرمایا کہ تم تو میری اولاد کی جگہ ہو تمھیں کیا فکر ہے جب چاہو آیا کرو اور میرے یہاں جو قواعد و ضوابط ہیں ان سے مستثنیات اتنے ہیں کہ مستثنی منہ سے بڑھ جاتے ہیں تم بے فکر رہو ۔ حضرت کی اس شفقت اور لطف و کرم نے پہلی مرتبہ میرے دل میں ایسا گھر کر لیا کہ وہاں سے لوٹنے کو دل نہ چاہتا تھا ۔ اس وقت تو نماز کا وقت تھا اور نماز ظہر کے بعد عام مجلس کا ۔ اس میں اللہ تعالی نے شرکت نصیب فرمائی شام کو حضرت والا نے خصوصی ملاقات کا موقع عنایت فرمایا تو والد صاحب نے میرے آ نے کی غرض کا ذکر کیا ۔ حضرت نے فرمایا ہاں مجھے معلوم ہے کہ اس معاملہ میں حضرت نانوتویؒ اور حضرت گنگوہیؒ کی رائے میں اختلاف تھا حضرت نانوتویؒ فلسفہ پڑھنے پڑھانے کے اس لئے حامی تھے کہ اسلامی عقائد سے دفاع انہی اصول و قواعد کی رو سے کیا جا سکے جو یہ فلسفہ پیش کرتا ہے ۔ اور حضرت گنگوہیؒ کی ںظر اس پر تھی کہ اس فلسفے کے بہت سے نظریات اسلامی عقائد کے خلاف ہیں ان کو دینی مدارس میں درس کے طور پر پڑھانا دلوں میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کا سبب ہو سکتا ہے ۔