ملفوظات حکیم الامت جلد 24 - یونیکوڈ |
|
کے سپرد کئے جن کو وہ تجویذ و قرات سکھلائیں ۔ ان طلباء میں جو اپنی جگہ قائم رہے اور کامیاب ہوئے ان میں قاری عبد اللہ صاحب ممتاز تھے ۔ ان کی محنت اور سعات مندی دیکھ کر مصری قاری نے بڑی توجہ کے ساتھ ان کو پورا فن سکھلایا ۔ یہاں تک کہ بعض لوگوں نے ان کے استاد مصری سے پوچھا کہ قاری عبد اللہ تمام ہندیوں میں بہتر ہیں تو فرمایا کہ نہیں بلکہ تمام عرب میں بہتر ہیں ۔ حضرتؒ نے فرمایا کہ میں جب مکہ معظمہ دوسری مرتبہ حاضر ہوا تو خیال ہوا کہ اب کچھ عرصہ یہاں ( حاجی صاحبؒ کی خدمت میں ) قیام رہے گا اس وقت تک تجویذ قرآن کی مشق کسی سے کر لوں اتفاقا ایک روز حضرت حاجی صاحبؒ نے بہت سے علماء اور قراء کی دعوت کی اور دعوت میں سب قراء نے قرآن مجید بھی سنایا ۔ مجھے ان سب میں قاری عبد اللہ صاحبؒ کی قرات زیادہ پسند آئی کیونکہ اس میں تصنع نہ تھا ۔ میں نے ان سے مشق کرنے کی درخواست کی اور کام شروع کر دیا ۔ اور بحمد اللہ اس میں ایسی صورت ہو گئی کہ بالاخانہ پر جب میں قاری صاحب سے مشق کرتا تھا تو نیچے سننے والوں کو یہ امتیاز مشکل ہوتا تھا کہ میں پڑھ رہا ہوں یا قاری صاحب ۔ لیکن قاری صاحبؒ فرماتے تھے کہ ہندوستان کی آب و ہوا کا یہ اثر ہے مگر یہ کیفیت وہاں پہنچنے کے بعد باقی نہ رہے گی ۔ البتہ اگر پاؤ پارہ روزانہ علیحدہ بیٹھ کر اسی طرح تلاوت کرنے کا معمول بنا لو تو یہ کیفیت باقی رہ سکے گی ۔ حضرتؒ نے فرمایا کہ مجھے اس کا التزام نہ ہو سکا ۔ مولانا رحمت اللہ کیرانوی نے تذکرہ میں حضرت نے فرمایا کہ شروع میں حضرت حاجی صاحبؒ کے معتقد نہ تھے بلکہ صوفیوں پر مناظرانہ تنقید فرمایا کرتے تھے اور حضرت حاجی صاحبؒ کے ساتھ مناظرانہ مکالمہ ہوتا تھا ۔ ایک مرتبہ حضرت حاجی صاحبؒ سے فرمایا کہ آپ تو اپنے کو جنید بغدادی سمجھتے ہیں حضرت حاجی صاحب نے فرمایا کہ ہاں مجھے یہ حق ہے کہ میں آپ کو کہوں کہ آپ اپنے آپ کو بو علی سینا سمجھتے ہیں مگر دلیل کسی کے پاس نہیں ۔ حضرت حاجی صاحب نے فرمایا کہ اصل چیز مدارس دینیہ ہیں ۔ مولانا نے فرمایا کہ ساری مساجد ڈھا کر مدرسے بنا دو ۔ پھر مولانا نے فرمایا کہ تسبیح گھمانے سے کیا ہوتا ہے حضرت نے فرمایا