ملفوظات حکیم الامت جلد 24 - یونیکوڈ |
|
ہو گئے کچھ گوشئہ گمنامی میں چلے گئے اور پھر انگریزوں نے یہ چاہا کہ اپنے مذہبی پادریوں کے تبلیغی مشن کے ذریعہ یہاں کے مسلمانوں کے قلوب اور ذہنوں سے اسلام کی محبت نکال دیں تا کہ وہ دل سے انگریز کی اطاعت قبول کر سکیں اس کام کے لئے شہر شہر قصبہ قصبہ پادریوں کی ٹولیاں گھومنے لگیں جو اسلام کے خلاف علماء اور عوام کو چیلنج کرتے تھے ۔ اس وقت کے بقیۃ السلف علماء میں سے چند بزرگ جو گوشئہ گمنامی میں تھے انہوں نے اس فتنہ کا مقابلہ کیا ۔ ان حضرات میں سر فہرست حضرت مولانا رحمت اللہ کیرانوی کا نام ہے ۔ عیسائیوں کے سب سے بڑے پادری فنڈر سے انہوں نے مناظرہ کیا اور بر سر مجلس اس سے یہ اقرار لکھوا کر چھوڑا کہ انجیل میں تحریف ہوئی ہے ۔ پھر یہی پادری مسلمانوں کے مرکز خلافت قسطنطنیہ پہونچا اور وہاں چیلنج کیا ۔ یہ زمانہ سلطان عبد العزیز خاں کی حکومت کا تھا مگر سلطان عبد الحمید خاں سابق خلیفہ بھی موجود تھے تو سلطان عبد الحمید خاں نے اس کے جواب کے لئے مولانا رحمت اللہ کیرانوی کو دعوت دی ۔ اور پھر مولانا نے عیسائی مذہب کی پوری حقیقت کھولنے کے لئے اپنی بینظیر کتاب اظہار الحق تصنیف فرمائی جس کے متعلق عیسائی پادریوں کا کہنا یہ ہے کہ یہ کتاب شائع ہوتی رہی تو دنیا میں عیسائیت کو فروغ نہیں ہو سکتا ۔ ان کے تذکرہ میں حضرتؒ نے فرمایا کہ قسطنطنیہ کے بعد مولانا رحمت اللہ صاحب مکہ معظمہ پہنچے ( مجھے یاد پڑتا ہے کہ مولانا رحمت اللہ مکہ معظمہ سے قسطنطنیہ بلائے گئے تھے جب سلطانی علماء نے کتاب الظہار الحق دیکھی تو ان کو معلوم ہوا کہ اس کا مصنف مکہ معظمہ میں ہے تب سلطان نے بلایا اور پادری فنڈر مولانا کا آنا معلوم کرتے ہی وہاں سے چلا گیا ) وہاں کچھ قیام ہوا تو دیکھا کہ عرب لوگ ہندویوں کی تلاوت وغیرہ پر ہسنتے ہیں ۔ محبت قومی کا تقاضا سے وہاں ایک مدرسہ صولتیہ کے نام سے قائم کیا اور ایک مصری قاری جن کو سلطان عبد الحمید خاں کی آمد کے وقت پانچ سو قاریوں میں سے انتخاب کیا گیا تھا ان کو قرات و تجویذ کے لئے مدرس رکھا اور چند ہندی طلباء ان