ملفوظات حکیم الامت جلد 24 - یونیکوڈ |
|
مجھے مکتب میں بٹھایا گیا تو حضرتؒ کو دعاء کے لیے خط لکھا گیا ۔ اس وقت حضرت گنگوہی قدس سرہ کی مجالس مرجع خلائق تھیں مگر ان میں حاضری کا کوئی موقع ہی نہیں تھا میری عمر آٹھ نو سال کی ہو گی جب 1323 ھ میں حضرت گنگوہی قدس سرہ کی وفات ہو گئی ۔ بچپن دار العلوم دیو بند کے ماحول میں گزرا جہاں ہر چھوٹے بڑے کی زبان پر سے " بڑے مولوی صاحب ،، کا نام سنا کرتا تھا ۔ قصبہ میں بھی اسی نام سے لوگ ایک مکان کا پتہ دیا کرتے تھے جو سب میں معروف و مشہور تھا ۔ والد صاحب سے سنا کہ یہ بڑے مولوی صاحب ان کے استاد بھی ہیں اور بہت بڑے بزرگ ہیں ۔ جب تعلی کچھ آ گے بڑھی ، لکھنے پڑھنے میں لگا تو معلوم ہوا کہ یہی بڑے مولوی صاحب اس وقت دار العلوم کے صدر مدرس ہیں ۔ حدیث پڑھاتے ہیں اور دار العلوم کے سب مدرسین اور منتظمین ان کے شاگرد ہیں یا معتقد ۔ اس وقت حضرت مولانا کے پر تکلف الفاظ کا کہیں رواج نہ تھا ۔ بزرگوں کی عظمت و محبت جاں نثاری کی حد تک پہنچی ہوئی تھی مگر شیخ الحدیث شیخ الکل حضرت شیخ وغیرہ القاب کا زبانی جمع خرچ جو بزرگوں کی عظمت و محبت کم ہونے کے زمانے میں شروع ہوا ۔ اس وقت اس کا کہیں نام نہ تھا ۔ بس ساری عقیدت مندی کے صلہ میں ان کو ۔ بڑے مولوی صاحب ،، کہا جاتا تھا ۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ان کا اسم گرامی حضرت مولانا محمود حسن ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے کچھ عرصہ کے بعد شیخ الہند کا لقب معروف ہو گیا ۔ ایک روز سنا کہ آج بڑے مولوی صاحب کے ہاں بخاری شریف کا درس شروع ہو رہا ہے ۔ تبرکا سب علماء و طلبا اس میں شرکت کے لئے جا رہے ہیں ۔ ہم بھی ساتھ لگ لئے اور بخاری شریف کا باب بدا الوحی اور پہلی حدیث کا بیان سنا ۔ اسی طرح ختم بخاری پر اجتماع ہوا تو آخری حدیث کا بیان سنا اور اب یہ چسکا لگ گیا کہ ہر سال بخاری شریف کے شروع اور ختم پر درس میں حاضری نصیبت ہوتی ۔ بچپن کا حافظہ تھا ، آج تک بعض بعض کلمات یاد ہیں ۔ حالانکہ اس وقت حدیث تو کیا کسی بھی فن کا شعور نہیں تھا ۔ فارسی اردو حساب ریاضی کی کتابیں پڑھا کرتا تھا ۔ رفتہ رفتہ ان بڑے مولوی صاحب کی مجلس میں جو بعد عصر اپنے مکان پر ہوا کرتی تھی ، کبھی