ملفوظات حکیم الامت جلد 24 - یونیکوڈ |
|
حضرت حکیم الامت قدس سرہ کے سامنے بھی یہ سوالات چند مرتبہ آئے جو امداد الفتاوی مبوب جلد اول ص 111 تا ص 117 میں درج ہیں ۔ حضرت نے فتوی ان حضرات فقہاء کے قول پر دیا ہے جن کے نزدیک ایسی صورت میں وہ نماز فرض ہی نہیں رہتی جس کا وقت نہ ملتا ہو ۔ اس تفصیل کے بعد وہ ملفوظ لکھا جاتا ہے جو اس مجلس میں ارشاد فرمایا ۔ فرمایا کہ شیخ اکبر محی الدین ابن عربیؒ نے فتوحات میں تصریح کی ہے کہ دجال کے زمانے میں جو دن ایک سال کا ہو گا وہ در حقیقت ایک سال نہیں ہو گا بلکہ نظام شمسی اپنی حالت پر بد ستور رہے گا ۔ طلوع و غروب آفتاب کا اپنے مقررہ اوقات پر ہوتا رہیگا ۔ مگر لوگوں کو دجال کے دجل کے سبب یہ طلوع و غروب نظر نہ آئیں گے ۔ وہ سال بھر تک مسلسل ایک ہی دن محسوس کریں گے ۔ ابو حنفیہ عصر حضرت مولانا رشید احمدؒ صاحب گنگوہی نے فتوحات کی اس تحقیق کی بناء پر فرمایا کہ اس سے واضح ہو گیا کہ اہل بلغار اور قطب شمالی کی طرف ملکوں کے مسئلے کو زمانہ دجال کے مسئلے پر قیاس کرنا صحیح نہیں ۔ کیونکہ وہاں در حقیقت ہر نماز کا وقت اپنے مقررہ وقت میں آئیگا ۔ لوگوں کو نظر نہ آئیگا ۔ اس لئے وہاں یہ حکم دیا گیا کہ اوقات کا اندازہ کر کے سال بھر کے دنوں کی نمازیں اس ایک دن میں پڑھیں ۔ بخلاف اہل بلغار وغیرہ کے کہ ان پر وقت عشاء آتا ہی نہیں ۔ اس لئے ان پر عشاء کی نماز ان ایام میں فرض ہی نہیں ہو گی ۔ پھر فرمایا کہ اصل مدار قرآن کریم کی آیت ان الصلوۃ کانت علی المومنین کتابا موقوتا کی تفسیر پر ہے ۔ آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ بے شک نماز مومنین پر ایک فرض موقت ہے ۔ اس آیت کی تفسیر اگر یہ کی جائے کہ ہر چوبیس گھنٹے میں پانچ نمازیں فرض ہیں تب تو اہل بلغار وغیرہ پر ہر روز کی پانچ نمازیں فرض ہوں گی کسی نماز کا وقت ملے یا نہ ملے ۔ لیکن اگر تفسیر آیت کی یہ ہو جیسا کہ الفاظ قرآن سے یہی ظاہر ہے کہ ہر روز کے مقررہ اوقات میں پانچ نمازیں فرض ہیں تو جن بلاد میں کسی نماز کا وقت ہی نہ آتا ہو وہ نماز ان کے لئے فرض نہ ہو گی ۔ ( انتہی ) حضرت گنگوہیؒ کی تحقیق تو شیخ اکبر کی تحقیق سے مستفاد ہے حضرت قاضی عیاضؒ نے بھی