ملفوظات حکیم الامت جلد 24 - یونیکوڈ |
|
جائے وہ یہ ہے کہ قطب شمالی کی جانب کے بعض ملکوں میں رات اور دن کا یہ نظام نہیں ہے جو ہمارے عام بلاد میں پایا جاتا ہے ۔ بلغار وغیرہ میں سال کے بعض ایام ایسے آتے ہیں کہ آفتاب غروب ہونے کے بعد ابھی شفق سفید غائب نہیں ہوتا کہ پھر آفتاب نکل آتا ہے گو یا عشاء اور وتر کی نمازوں کا وقت ان ایام میں آتا ہی نہیں ۔ یہ سوال قدیم فقہاء کے زمانے میں زیر بحث آیا تو ان میں رائیں مختلف ہوئیں ۔ ایک جماعت نے فرمایا کہ ان پر بھی نماز عشاء فرض ہے ۔ اگرچہ اس کی ادائیگی طلوع آفتاب کے بعد کرنا ہو گی کیونکہ ہر روز میں پانچ نمازوں کا فرض ہونا قرآن و سنت سے ثابت ہے اس میں کسی ملک یا کسی خطہ کو مستثنی نہیں کیا گیا اور اپنے اس فتوی پر انہوں نے زمانہ دجال کی ایک حدیث سے استدلال کیا ہے جسمیں آیا ہے کہ دجال کے زمانے میں ایک دن ایک سال کا ہو گا ۔ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ جو دن سال بھر کا ہو گا کیا اس دن میں بھی صرف پانچ نمازیں پڑھی جائیں گی ۔ آپؐ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ اس میں اندازہ لگا کر ہر روز کی پانچ نمازیں ادا کرنا ہوں گی ۔ دوسری جماعت فقہاء نے فرمایا کہ پانچ نمازوں کی فرضیت ان کے پانچ اوقات کے ساتھ مشروط ہے ۔ جس جگہ کسی نماز کا وقت بالکل ہی نہ آئے وہاں وہ نماز ساقط ہو جائے گی ۔ جیسے وضوء کے چار فرض ہیں لیکن اگر کسی کے پاؤں کٹے ہوئے ہوں تو اس پر پاؤں دھونے کا فرض عائد نہیں ہوتا ۔ صرف تین فرض رہ جاتے ہیں ۔ اور حدیث دجال پر اس مسئلے کے قیاس کو صحیح قرار دیا ۔ قطب شمالی کی جانب کے ملکوں میں لیل و نہار کے اوقات میں اس کے سواء اور بھی مختلف صورتیں آفتاب کے طلوع غروب کی پیش آتی ہیں ۔ ان سب میں نمازوں کے متعلق یہی دو نظریئے فقہی ہیں ۔ بعض فقہاء پانچوں نمازوں کو فرض قرار دیتے ہیں بعض کے نزدیک جس نماز کا وقت وہاں نہ ملے وہ نماز ساقط ہو جاتی ہے فرض ہی نہیں ہوئی ۔ علامہ ابن عابدین شامی نے " رد المحتار ،، میں اس مسئلے کی تحقیق اور فقہاء کی دونوں جماعتوں کی تحقیقی بحثیں نقل فرمائی ہیں ۔