تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
شعب ابوطالب کی قیدو نظر بندی نے ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اخلاق کا زیادہ مطالعہ کرنے‘ زیادہ متاثر ہونے اور اسلام سے زیادہ واقف ہونے کا موقع دیا اور اس نسلی امتیاز نے ان کو (بنی ہاشم) کو بجا طور پر مستحق تکریم بنا دیا۔ تین سال کی اس ظالمانہ قید اور بنی ہاشم کے مصائب نے بالآخر قریش کے بعض افراد کو متاثر کیا۔ بنی ہاشم کے چھوٹے چھوٹے بچوں کا بھوک کے مارے تڑپنا اور فاقہ زدہ والدین کے سامنے ان کی اولاد کا بلکنا ایسی چیزیں تھیں کہ قریش مکہ ان کا صحیح اندازہ کر سکتے تھے‘ زہیر بن ابی امیہ بن مغیرہ نے بنی ہاشم کی مصیبت کو اس لیے سب سے پہلے محسوس کیا کہ ابو طالب اس کے ماموں تھے‘ زہیر نے اول مطعم بن عدی بن نوفل بن عبدمناف کو رشتہ داری کی طرف توجہ دلا کر عہد نامے کے توڑنے پر مجبور کیا‘ پھر ابوالبختری بن ہشام اور زمعہ بن الاسود کو اپنا ہم خیال بنا لیا‘ غرض مکہ میں کئی شخص جو بنو ہاشم سے قرابت داری رکھتے تھے بنو ہاشم کو مظلوم سمجھ کر اس ظالمانہ عہد نامہ کی تنسیخ کے متعلق چرچا کرنے لگے۔ انہیں ایام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ابوطالب سے کہا کہ مجھ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر دی گئی ہے کہ اس عہد نامہ کی تمام تحریروں کو کیڑوں نے کھا لیا ہے اس میں جہاں جہاں اللہ کا نام ہے وہ بدستور لکھا ہوا ہے‘ لفظ اللہ کے سوا باقی تمام حروف غائب ہو چکے ہیں‘ یہ سن کر ابوطالب اپنی گھاٹی سے باہر نکلے اور انہوں نے قریش سے کہا کہ مجھ کو محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے ایسی خبر دی ہے‘ تم عہد نامہ کو دیکھو اگر یہ خبر صحیح ہے اور عہد نامہ کی تحریر معدوم ہو چکی ہے تو مقاطعہ ختم ہو جانا چاہیے‘ چنانچہ اسی وقت قریش خانہ کعبہ میں دوڑے ہوئے آئے‘ دیکھا تو دیمک نے تمام حروف چاٹ لیے تھے‘ جہاں جہاں لفظ اللہ لکھا ہوا تھا وہ البتہ بدستور موجود تھا‘ یہ دیکھ کر سب حیران اور ششدر رہ گئے اور اسی وقت مقاطعے کے ختم ہونے کا اعلان کر دیا۔ بنو ہاشم اور تمام مسلمان شعب ابوطالب سے تین سال کے بعد نکلے‘ اور مکہ میں آ کر اپنے گھروں میں رہنے سہنے لگے‘ شعب ابوطالب میں مسلمانوں کو بھوک سے بیتاب ہو کر اکثر درختوں کے پتے کھانے پڑتے تھے‘ بعض بعض شخصوں کی حالت یہاں تک پہنچی کہ اگر کہیں سوکھا ہوا چمڑا مل گیا تو اسی کو صاف اور نرم کر کے آگ پر رکھا اور بھون کر چبایا‘ ۱؎ حکیم بن حزام کبھی کبھی اپنے غلام کے ہاتھ اپنی پھوپھی سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہ کے لیے کچھ کھانا چھپا کر بھیجوایا کرتے تھے‘ اس کا حال جب ایک مرتبہ ابوجہل کو معلوم ہوا تو اس نے غلام سے غلہ چھین لینا چاہا اور زیادہ سختی سے نگرانی شروع کر دی۔۲؎ عام الحزن یعنی نبوت کا دسواں سال جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم شعب ابی طالب سے نکلے ہیں تو نبوت کا دسواں سال شروع ہو چکا تھا‘ امید یہ تھی کہ اب مسلمانوں کے ساتھ قریش کی طرف سے رعایت اور نرمی کا برتائو ہو گا‘ مگر نہیں مسلمانوں کی محنتیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے مصائب اور بھی زیادہ بڑھ گئے‘ اور جلد ہی ایسے حالات پیش آئے کہ اس سال کا نام ہی عام الحزن یعنی غموں کا سال مسلمانوں میں مشہور ہوا‘ رجب کے مہینے میں ابوطالب جن کی عمر اسی سال سے اوپر تھی بیمار ہو کر فوت ہوئے‘ ابوطالب کے فوت