تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
۱؎ طبقات ابن سعد ۳/۳۵۔ ہوتے تو سخت اندیشہ تھا کہ مہاجرین و انصار کی اخوت و محبت ذرا سی دیر میں برباد ہو کر جمعیت اسلامی پارہ پارہ ہو جاتی‘ مگر چونکہ خدائے تعالیٰ اپنے دین کا خود حافظ و ناصر تھا‘ اس نے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو ہمت و استقامت عطا فرمائی کہ ہر ایک خطرہ اور ہر ایک اندیشہ ان کی بصیرت و قوت کے آگے فوز و اصلاح سے تبدیل ہو گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی قوت قدسی نے تمام مسلمانوں کو ایک ہی قوم اور ایک ہی خاندان بنا دیاتھا اور نور ایمان کے محیر العقول اثر سے قبیلوں‘ خاندانوں اور ملکوں کے امتیازات یک سر برباد و منہدم ہو چکے تھے اور ان کی حقیقت اس سے زیادہ باقی نہ رہی تھی کہ قبیلوں اور خاندانوں کے نام سے لوگوں کی شناخت میں اور پتہ دینے میں آسانی ہوتی تھی اور بس۔ وفات نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد اور اس روح اعظم کے ملاء اعلیٰ کی طرف متوجہ ہونے پر ذرا سی دیر کے لیے اس تفریق قومی کے ابتلاء کا کروٹ لینا کوئی حیرت اور تعجب کا مقام نہیں ہے دیکھنا یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی پاک و مطہر جماعت نے اس ابتلاء کو اپنے لیے موجب اصطفا بنایا یا سامان بربادی ‘ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ مدینہ منورہ میں مہاجرین کی تعداد انصار کے مقابلے میں کم تھی‘ لیکن انصار بھی دو حصوں میں منقسم تھے یعنی اوس‘ اور خزرج‘ اسلام سے پہلے قدیم سے ایک دوسرے کے حریف اور رقیب چلے آتے تھے‘ اس طرح مدینہ منورہ کے موجودہ مسلمانوں کو تین بڑے بڑے حصوں میں منقسم سمجھا جا سکتا تھا‘ اوس‘ خزرج‘ قریش یا مہاجرین یا مکی‘ قبیلہ خزرج کے رئیس سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ تھے‘ ان کے مکان کے ملحق ایک وسیع نشست گاہ تھی‘ جس کی صورت یہ تھی کہ ایک وسیع چبوترہ تھا اس کے اوپر سائبان پڑا ہوا تھا‘ اسی کو سقیفہ بنی ساعدہ کہتے تھے۔ بیعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کا حال سن کر ایک طرف مسجد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم میں لوگ جمع ہو گئے تھے‘ ان میں قریباً سب مہاجرین تھے‘ کیونکہ مہاجرین کے مکانات اسی محلہ میں زیادہ تھے‘ یہاں انصار بہت کم تھے‘ دوسری طرف بازار کے متصل سقیفہ بنی ساعدہ میں مسلمانوں کا اجتماع تھا‘ اس مجمع میں تقریباً سب انصار ہی تھے‘ کوئی ایک دو مہاجر بھی اتفاقاً وہاں موجود تھے‘ اسلام کی ابتداء اور اس کی نشوونما مخالفین کی کوششیں‘ جنگ و پیکار کے ہنگامے‘ شرک کا مغلوب و معدوم ہونا‘ اور اسلامی قانون و اسلامی آئین کے سامنے سب کا گردنیں جھکا دینا سب کچھ ان لوگوں کے پیش نظر تھا اور وہ جانتے تھے کہ یہ نظام اب وفات نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد دنیا میں اسی وقت بحسن و خوبی قائم رہ سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا جانشیں منتخب کر لیا جائے۔ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم میں سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عاشقانہ جذبہ نے لوگوں کو کچھ سوچنے اور مسئلہ خلافت پر غور کرنے کا موقع ہی نہ دیا‘ سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ وفات نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کی خبر سن کر اگر جلد یہاں نہ پہنچ جاتے تو اللہ تعالیٰ جانے مسجد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم میں عشاق نبوی رضی اللہ عنہ کی یہ حیرت و اضطراب کی حالت کب تک قائم رہتی‘ لیکن دوسرے مجمع کی جو سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی نشست گاہ میں تھا یہ حالت نہ تھی‘ وہاں انتخاب