تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
روانہ کیا‘ سیدنا عمرو بن العاص رات کو سفر اور دن کو پوشیدہ مقامات میں قیام کرتے ہوئے روانہ ہوئے‘ دشمن کے قریب پہنچے تو معلوم ہوا کہ دشمن کی جمعیت بہت زیادہ ہے‘ ایک قاصد مدینہ کی طرف بھیجا گیا‘ یہاں سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کو کمک دے کر روانہ کیا‘ سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کے پہنچنے پر لشکر اسلام حملہ آور ہوا اور دشمن تاب مقادمت نہ لا سکا اور ان کا ۱؎ ’’اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار!‘‘ ۲؎ صحیحبخاریکتابالمغازیحدیث۴۲۶۲۔ ۳؎ ماتم سے مراد ہے رونا۔ اس سے روافض کا وہ مفہوم اور مطلب نہ لیا جائے جو وہ ماہ محرم الحرام میں اپنی مخصوص رسموں وغیرہ سے لوگوں کو تاثر دیتے ہیں۔ ایسے امور سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے منع فرمایا ہے۔ اس لیے وہ دین کا حصہ نہیں۔ ۴؎ سیرت ابن ہشام ص ۴۸۵۔ ۵؎ سیرت ابن ہشام ص ۴۸۶۔ ۶؎ الرحیق المختوم ص ۵۲۹۔ تمام لشکر منتشر ہو گیا‘ اسلامی لشکر صحیح سالم مدینہ منورہ میں واپس آیا۔۱؎ مدینہ سے پانچ منزل کے فاصلے پر ساحل سمندر کے قریب قبیلہ جہنیہ نے غدر و سرکشی اور مدینہ پر حملہ آوری کے سامان جمع کئے اس کا حال ۸ ھ میں آپ کو معلوم ہوا‘ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کو تین سو مہاجر و انصار کے ساتھ اس طرف روانہ کیا‘ یہ مہم بغیر کسی مقابلہ میں اور مقاتلہ کے واپس آئی اور دشمنوں پر اس مہم کی خبر ہی سن کر ہیبت طاری ہو گئی۔ فتح مکہ ماہ شعبان ۸ ھ میں مکہ کے اندر ایک عجیب حادثہ رونما ہوا‘ بنو خزاعہ اور بنوبکر حدیبیہ کے صلح نامہ کی رو سے اپنی عداوتوں کو فراموش کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور قریش مکہ کے حلیف بن گئے تھے‘ اب وہ ایک دوسرے پر حملہ آور نہیں ہو سکتے تھے‘ بنو بکر کی نیت بگڑی اور ان کے سردار نوفل بن معاویہ نے خزاعہ سے بدلہ لینا چاہا‘ قریش مکہ کا فرض تھا کہ وہ اپنے حلیف بنوبکر کو اس ارادے سے باز رکھتے اور بنو خزاعہ پر جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے حلیف تھے حملہ نہ کرنے دیتے کیونکہ حدیبیہ میں دس سال کے لیے صلح ہوئی تھی‘ لیکن قریش مکہ نے الٹا بنوبکر کو ہتھیاروں وغیرہ سے مدد دی اور قریش میں سے صفوان بن امیہ‘ عکرمہ بن ابی جہل‘ سہیل بن عمرو وغیرہ نے بنوبکر کے ساتھ حملہ میں شرکت کی‘ بنوبکر معہ سرداران قریش بنو خزاعہ پر جا چڑھے اور اچانک ان کو قتل کرنا شروع کر دیا‘ یہ حملہ رات کے وقت ایسی حالت میں کیا گیا کہ بنو خزاعہ پڑے ہوئے سو رہے تھے‘ بنو خزاعہ مقابلہ سے مجبور ہو کر حرم میں جا چھپے‘ ظالموں نے وہاں بھی ان کو نہ چھوڑا‘ بدیل بن ورقہ خزاعی کے گھر میں گھس کر اس کا تمام گھر بار لوٹ لیا‘ اس شبخون میں بنو خزاعہ کے بیس یا تیس آدمی مارے گئے جن میں سے بعض بیت اللہ کے اندر قتل کئے گئے‘ بدیل بن ورقہ اورعمروبن سالم معہ اپنی قوم خزاعہ کے چند آدمیوں کے مدینہ کی طرف روانہ ہوئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے بنوبکر اور قریش کے اس نقض عہد کی شکایت کریں۔ جس رات مکہ میں معاہدہ صلح کی ایسی ظالمانہ طور پر دھجیاں اڑائی جا رہی تھیں‘ خزاعہ کے چند آدمیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا نام لے کر فریاد کی کہ اے