تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کے پاس جانے کی تیاریاں کر رہے تھے‘ میسرہ بن مسروق نے جاتے ہی ان پر حملہ کیا‘ بڑا بھاری معرکہ ہوا‘ سیدنا ابوعبیدہ نے انطاکیہ سے مالک بن اشتر نخعی کو میسرہ کی کمک پر روانہ کیا‘ اس نئی فوج کو آتے ہوئے دیکھ کر عیسائی گھبرا گئے اور حواس باختہ ہو کر بھاگے‘ سیدنا خالد بن ولید ایک چھوٹا سا لشکر لے کر مرعش کی طرف گئے اور عیسائیوں نے جلاوطنی کی اجازت حال کر کے شہر خالد بن ولید کے سپرد کر دیا‘ اسی طرح ایک لشکر لے کر حبیب بن مسلمہ قلعہ حارث کی طرف گئے اور اس کو فتح کیا۔ فتح قیساریہ(قیرہ) و فتح اجنادین انہیں ایام میں انطاکیہ و علاقہ انطاکیہ کو اسلامی لشکر فتح کر رہا تھا‘ دمشق کے عامل سیدنا یزید بن ابی سفیان نے اپنے بھائی معاویہ بن ابی سفیان کو حکم فاروق کی بنا پر فوج دے کر قیساریہ کی طرف بھیجا‘ وہاں سخت معرکہ پیش آیا اور اسی ہزار عیسائی میدان جنگ میں مسلمانوں کے ہاتھ مارے گئے اور قیساریہ پر مسلمانوں کا قبضہ ہوا۔ مہم مرج روم اور فتح بیسان کے بعد قیصر ہرقل نے ارطبون نامی بطریق کو جو نہایت بہادر اور مشہور سپہ سالار تھا مقام اجنادین میں فوجیں جمع کرنے کا حکم دیا‘ ارطبون نے ایک زبردست فوج تو اپنے پاس مقام اجنادین میں رکھی اور ایک فوج مقام رملہ میں اور ایک بیت المقدس میں تعینات کی‘ یہ افواج اسلامی حملہ آوروں کی منتظر اور ہر طرح کیل کانٹے سے لیس اور تعداد میں بے شمار تھیں‘ سیدنا عمروبن العاص رضی اللہ عنہ نے جو اس سمت کے حصہ افواج کی سرداری رکھتے تھے بحکم ابوعبیدہ‘ علقمہ بن حکیم فراسی اور مسرور بن العکی کو بیت المقدس کی طرف‘ اور ابوایوب المالکی کورملہ کی جانب روانہ کیا‘ عمروخود ارطبون کے مقابلہ کو اجنادین کی جانب بڑھے‘ اجنادین میں نہایت سخت معرکہ آرائی ہوئی‘ یہ لڑائی جنگ یرموک کی مانند تھی‘ بالآخر ارطبون سیدنا عمرو رضی اللہ عنہ کے مقابلہ سے شکست کھا کر بیت المقدس کی طرف بھاگا‘ سیدنا علقمہ بن حکیم فراسی نے جو بیت المقدس کا محاصرہ کئے ہوئے تھے راستہ دے دیا‘ ارطبون بیت المقدس میں داخل ہو گیا اور اجنادین پر سیدنا عمرو رضی اللہ عنہ کا قبضہ ہوا۔ فتح بیت المقدس ارطبون جب بیت المقدس میں داخل ہو گیا تو سیدنا عمرو رضی اللہ عنہ نے غزہ سبنطیہ‘ نابلس‘ لد‘ عمواس‘ بیت جبرین‘ یافا وغیرہ مقامات پر قبضہ کیا‘ اور بیت المقدس کے اردگرد کے تمام علاقے پر قابض ہو کر بیت المقدس کی طرف بڑھے‘ اور ۱؎ جبل حارث کوہ ارارات کا پرانا نام ہے مرعش اسی کے دامن میں واقع ہے۔ محاصرہ کو سختی سے جاری رکھا‘ انہیں ایام میں سیدنا ابوعبیدہ شام کے انتہائی اضلاع قنسرین وغیرہ کی فتح سے فارغ ہو کر فلسطین و بیت المقدس کی طرف روانہ ہو چکے تھے‘ عیسائی قلعہ بند ہو کر نہایت سختی سے محاصرین کی مدافعت اور مقابلہ کررہے تھے‘ ابوعبیدہ کے آ جانے کی خبر سن کر ان کی ہمت کچھ پست سی ہو گئی اور سپہ سالاراعظم یعنی سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کے پہنچنے پر انہوں نے صلح کے سلام و پیام جاری کئے‘ مسلمانوں کی طرف سے صلح میں کوئی تامل ہوتا ہی نہ تھا‘ مسلمانوں کی طرف سے جو شرائط پیش ہوتے تھے وہ بہت سادہ اور ایسے مقررہ معینہ تھے کہ تمام