تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
برائے خداہم لوگوں کو ابتلاء میں نہ ڈالیں‘ ورنہ یادرہے کہ آپ بھی ابتلاء میں مبتلا ہو جائیں گے اور امت مسلمہ کوبڑا نقصان پہنچے گا۔ سیدنا قعقاع رضی اللہ عنہ کی ان باتوں کا سیدنا ام المومنین رضی اللہ عنہ اور سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا زبیر کے رضی اللہ عنہ دلوں پر بڑا اثر ہوا اور انہوں نے کہا کہ اگر سیدنا علی کے یہی خیالات ہیں جو آپ نے بیان کئے اور وہ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ سے قصاص لینے کا اردہ رکھتے ہیں تو پھر لڑائی اور مخالفت کی کوئی بات ہی باقی نہیں رہتی‘ ہم اب تک یہی سمجھتے رہے کہ ان کو قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ سے ہمدردی ہے اور اسی لیے قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ ان کے لشکر میں شریک اور ان کے زیر حمایت سب اہم کاموں میں دخیل ہیں۔ قعقاع بن عمرو رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے جو کچھ کہا ہے یہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے خیالات کی ترجمانی ہے‘ ان حضرات نے فرمایا کہ پھر ہم کو بھی ان سے کوئی مخالفت نہ ہوگی‘ اس گفتگو کے بعد سیدنا قعقاع رضی اللہ عنہ بصرہ سے رخصت ہو کر امیر المومنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لشکر کی طرف چلے‘ ان کے ساتھ ہی بصرہ کے بااثر لوگوں کا ایک وفد بھی ہو لیا‘ یہ لوگ اس لیے گئے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور اہل کوفہ کے خیالات معلوم کر کے آئیں کہ وہ حقیقتاً مصالحت پر آمادہ ہیں یا نہیں‘ کیونکہ انہوں نے یہ افواہیں سنی تھیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا یہ ارادہ ہے کہ بصرہ کو فتح کر کے جوانوں کو قتل کر دیں گے‘ اور ان کی عورتوں اور بچوں کو لونڈی اور غلام بنا لیں گے۔ یہ خبریں عبداللہ بن سبا کی جماعت کے لوگوں نے جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں شریک تھے بصرہ میں مشہور کرا دی تھیں۔ جب سیدنا قعقاع بن عمر رضی اللہ عنہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے تمام کیفیت گوش گذار کی‘ تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ بہت ہی خوش ہوئے‘ پھر اہل بصرہ کے وفد نے کوفہ والوں سے جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں شریک تھے‘ مل کر ان کی رائے دریافت کی تو سب نے صلح و آشتی کو مناسب اور بہتر بتایا‘ پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان بصرہ والوں کو بھی اپنی خدمت میں طلب کر کے ہر طرح اطمینان دلایا‘ یہ لوگ بھی خوش و خرم واپس آئے اور سب کو صلح و مصالحت کے یقینی ہونے کی خوش خبری سنائی۔ فتنہ پردازی کے لیے مشورت صلح کی تمہید قائم ہو جانے کے بعد سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے تمام اہل لشکر کو جمع کر کے ایک فصیح و بلیغ اور نہایت پر تاثیر تقریر فرمائی‘ اور حکم دیا کہ کل اہل بصرہ کی جانب کوچ ہو گا‘ لیکن ہمارا بصرہ کی جانب بڑھنا جنگ و پیکار کے لیے نہیں‘ بلکہ صلح و آشتی قائم کرنے کے لیے اور آتش جنگ پر پانی ڈالنے کے لیے ہے‘ ساتھ ہی آپ نے یہ حکم دیا کہ جو لوگ محاصرہ عثمان رضی اللہ عنہ میں شریک تھے‘ وہ ہمارے ساتھ کوچ نہ کریں بلکہ ہمارے لشکر سے علیحدہ ہو جائیں۔ یہ تقریر سن کر اور حکم سن کر اہل مصر اور عبداللہ بن سبا کو بڑی فکر پیدا ہوئی‘ سیدنا علی کے لشکر میں ایسے لوگوں کی تعداد دو ڈھائی ہزار کے قریب تھی جن میں بعض بڑے با اثر اور چالاک بھی تھے‘ ان لوگوں کے سرداروں اور سمجھ داروں کو عبداللہ بن سبا نے الگ ایک خاص مجلس میں مدعو کیا‘ اج مجلس خاص میں عبداللہ بن سبا‘ ابن بلجم‘