تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اسی زمانہ کی بعض تصانیف جو آج پرانی اور مذہبی کتابوں کی صورت میں دستیاب ہوتی ہیں میں ہندیوں کے اخلاق کو نہایت پست اور ان کی معاشرت کو بے حد قابل شرم ظاہر کرتی ہیں‘ ستاروں‘ سیاروں‘ پہاڑوں‘ دریائوں‘ درختوں ‘حیوانوں‘ سانپوں‘ پتھروں اور شرم گاہوں کی پرستش ملک ہندوستان میں رائج اور ہر طرف جاری و ساری تھی۔۱؎ اسی سے اندازہ کیاجا سکتا ہے کہ اس ملک کی تاریکی کس قدر عظیم اور اہم تھی۔ چین جن ملکوں کا ذکر اوپر ہو چکاہے یہ سب کے سب عرب کے ہر چہار سمت واقع ہیں اور یہی مشہور متمدن ممالک سمجھتے جاتے ہیں ان میں صرف ملک چین کا اور اضافہ ہو سکتا ہے کہ وہ بھی آباد و سر سبز اور متمدن ممالک میں شمار ہو سکتا تھا۔ چین کی حالت مذکورہ ممالک سے بھی بدتر تھی‘ کنفیوشش ‘ تائو اور بدھ تین مذاہب کی کیمیاوی امتزاج نے چین کی تہذیب اور اخلاقی حالت میں وہ کیفیت پیدا کر رکھی تھی جو سوڈا اور ٹار ٹارک ایسڈ کے ملانے سے پیدا ہوتی ہے‘ بالآخر اس حالت میں کوئی سکون اور امن کی کیفیت پیدا ہوئی تو اسی وقت میں جب کہ مسلمانوں کی ایک جمعیت نے چین میں داخل ہو کر سکونت اختیار کی اور اپنے اخلاقی نمونے سے اپنے ہمسائیوں کو متاثر کیا‘ ترکستان‘ روس‘ برہما‘ یورپ وغیرہ میں بھی انسانی آبادی موجود تھی‘ لیکن ان ملکوں کے رہنے والے انسانوں سے یا تو دنیا واقف نہ تھی یا ان کو بمشکل انسان کہا جا سکتا ہو گا‘ بہرحال کوئی قابل رشک خوبی ان میں موجود نہ تھی۔ خلاصہ کلام مذکورہ بالا حالات کے پڑھنے سے یہ بات بآسانی ذہن نشیں ہو سکتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ۱؎ اب بھی یہی حال ہے اور ہندوئوں کی مشرک قوم میں بلامبالغہ چھوٹے اور بڑے کروڑوں معبود ہیں جن کی یہ قوم پوجا کرتی ہے۔ مبعوث ہونے سے پہلے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت کے وقت ساری کی ساری دنیا تاریک ہو چکی تھی اور ربع مسکون پر جہالت کی اندھیری رات اس طرح چھائی ہوئی تھی کہ کسی حصہ اور کسی ملک میں کوئی ٹمٹماتی ہوئی روشنی مطلق نظر نہیں آتی تھی۔ دنیا پر اس سے پہلے کبھی ایسا وقت نہیں آیا تھا کہ ایک ہی وقت میں ہر جگہ تہذیب و تمدن اخلاق‘ علم و حکمت‘ معرفت الہی سب کے سب اس طرح برباد ہوئے ہوں اور تمام ربع مسکون تیرہ و تاریک ہو گیا ہو‘ ہر ملک میں خدائے تعالیٰ کے مرسل اور ہادی و رہنما آتے رہے اور یکے بعد دیگرے روشنی اور تاریکی کے دور دورے رات اور دن کی طرح نمودار ہوتے رہے لیکن چونکہ اب تمام ملکوں یعنی دنیا کے لیے ایک ہی ہادی برحق مبعوث ہونے والا تھا‘ لہذا خدائے تعالیٰ نے تمام ہادیوں اور ہر ملک کے رہبروں کی لائی ہوئی تعلیمات کے زمانہ کو ایک ہی مقررہ وقت میں ختم کر کے ہر ملک اور دنیا کے ہر حصہ میں نئے ہادی اور نئے ہدایت نامہ کی ضرورت کو پیدا و ہویدا کر دیا تھا‘ اور ساری کی ساری دنیا یک زبان ہو کر زبان حال سے کسی ہادی اور ہدایت کی خواہش کا اظہار کر رہی تھی۔ چنانچہ خدائے تعالیٰ نے اس کامل ہادی اور ختم الرسل صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت اور پیدائش کے لیے ملک عرب کا انتخاب کیا اور ربع مسکون کی اس تاریک شب کے ختم