تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
اس امر کی خواہش ظاہر کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان کا مال تجارت لے کر شام کی طرف جائیں اور بطور کارندہ خدمات انجام دیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے چچا ابوطالب کے مشورہ کے بعد اس خواہش کو منظور کر لیا اور سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے معقول معاوضہ مقرر کر دیا‘ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم خدیجہ رضی اللہ عنہ کے مہتمم مال تجارت ہو کر شام کی طرف روانہ ہوئے اس سفر میں خدیجہ رضی اللہ عنہ کا غلام میسرہ اور خدیجہ رضی اللہ عنہ کا ایک عزیز خزیمہ ابن حکیم بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ تھے۔ شام کا دوسراسفر یہ تجارتی قافلہ جس کے ہمراہ آپ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہ کا مال کے روانہ ہوئے تھے ملک شام میں داخل ہو کر ایک صومعہ کے قریب ٹھہرا‘ اس صومعہ میں ایک راہب رہتا تھا جس کا نام نسطورا تھا‘ نسطورا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا تو اپنے صومعہ سے بعض کتاب سماویہ لے کر آیا اس نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آ کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے جسم اور چہرے کی دیکھ بھال شروع کی کبھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھتا کبھی کتب سماویہ کو پڑھتا اور مقابلہ کرتا‘ اس عجیب کیفیت کو دیکھ کر خزیمہ کے دل میں شک پیدا ہوا اور اس نے بلند آواز سے یا ’’آل غالب‘‘ کہا یعنی آل غالب جلدی مدد کو پہنچو‘ یہ آواز سن کر قافلہ کے تمام قریش دوڑ پڑے۔ نسطورا اس طرح قریش کو آتے دیکھ کر وہاں سے بھاگا اور اپنے صومعہ کی چھت پر جا بیٹھا۔ وہاں سے قافلہ والوں کو بتایا کہ خطرہ کی کوئی بات نہیں تھی میں اس شخص کا جو تمہارے ساتھ ہے کتب سماویہ کو دیکھ دیکھ معائنہ کر رہا تھا‘ نبی آخرالزماں کے جو جو علامات اور خط و خال ہماری کتابوں میں لکھے ہیں وہ سب اس میں موجود ہیں‘ یہ سن کر سب کو اطمینان ہوا۔ اس سفر میں بھی قافلہ کا مال بہت منافع سے فروخت ہوا‘ کہا جاتا ہے کہ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم کئی مرتبہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہ کا مال لے کر بحرین یمن اور شام کی طرف گئے‘ ہر مرتبہ تجارت میں خوب نفع ہوا۔۱؎ نکاح آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی دیانت‘ امانت‘ خوش اخلاقی‘ پاکبازی‘ شرافت ‘ نجابت وغیرہ سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہ سے پوشیدہ نہ تھیں اگرچہ مکہ کے شرفاء و امراء میں سے ہر ایک سیدہ خدیجۃ الکبریٰ سے نکاح کا آرزو مند تھا مگر انہوں نے خود نفیسہ نامی عورت کے ذریعہ اور بہ روایت دیگر عاتکہ بن عبدالمطلب کے ذریعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں شادی کا پیغام بھیجا‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے چچا ابوطالب نے بھی اس رشتہ کو منظور کر لیا‘ ابوطالب ہی نے خطبہ نکاح پڑھا‘ اور اس مجلس نکاح میں عمر بن اسد اور ورقہ بن نوفل وغیرہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہ کے تمام قریبی رشتہ دار‘ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے رشتہ دار سب موجود تھے‘ نکاح کے وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی عمر پچیس سال کی اور سیدہ خدیجۃ الکبریٰ کی عمر چالیس سال کی تھی سیدہ خدیجۃ الکبریٰ کے بطن سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے تین بیٹے اور چار بیٹیاں پیدا ہوئیں۔۲؎ صادق اور الامین کا خطاب نہ صرف مکہ معظمہ بلکہ تمام عرب میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی نیکی‘ خوش اطواری‘ دیانت‘ امانت اور راست بازی کی اس قدر شہرت ہو گئی تھی کہ لوگ آپ صلی