تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
اور کم ہمتی کا۔ یہ بزدلی اور کم ہمتی دین سے ناواقف ہونے اورقرآن و حدیث پر نظر نہ کرنے کے سبب پیدا ہوئی ہے۔ ۱؎ یعنی برائیوں‘ فسادات وغیرہ کی آماجگاہ بن جائے۔ شخصی وراثتی سلطنت جب کوئی شخص تخت سلطنت کا مالک اور تاج حکومت پر متصرف ہو جاتا ہے تو نسب اور خون کا تعلق اور اس کی فطری محبت کا تقاضا اس کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اس امر کی کوشش کرے کہ اس کے بعد جس طرح اس کا بیٹا اس کی مملوکات و مقبوضات کا وارث و مالک ہو گا اسی طرح اس کی بادشاہت و حکومت کا بھی وارث ہو‘ لیکن یہ اس کی غلطی ہوتی ہے۔ کیونکہ بادشاہت اس کی ملکیت نہ تھی بلکہ وہ ایک امانت تھی جو ملک و قوم نے اس کے سپرد کر رکھی تھی۔ اس کا کیا حق ہے کہ وہ امانت پر تصرف کرے اور بے اختیار خود کسی کے سپرد کرے۔ امانت ہمیشہ اس کے مالک کو سپرد ہونی چاہیئے۔ لہذا اس بادشاہ کے بعد بادشاہت کا کسی دوسرے کے سپرد کرنا ملک و قوم کا کام ہے‘ نہ اس بادشاہ کا‘ لیکن بادشاہ یا خلیفہ یا حکمران چونکہ سب کا مطاع اور بڑی بڑی طاقتوں پر عامل و قابض ہوتا ہے‘ لہذا اس کو اس خیانت سے باز رکھنے اور اس غلط کاری سے بچانے کے لیے اس بڑی ہمت اور اس قوی ارادے اور اس طاقت ور قلب اور اس بلند حوصلہ کی ضرورت ہے جو اسلام اپنے ہر ایک پیرو میں پیدا کرنا چاہتا ہے‘ اور جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور قرآن حکیم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے اندر پیدا کردیا تھا۔ مسلمانوں نے تعلیم اسلام کی طرف سے اعراض کیا‘ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی اس ہمت‘ ارادے اور حوصلے میں کمی واقع ہو گئی جو اسلام نے پیدا کیا تھا اور وہ اپنے حکمرانوں کو اس خیانت سے باز نہ رکھ سکے بلکہ کم ہمتی کے سبب حکمرانوں کی اس خیانت پر رضا مند ہو گئے‘ بالآخر شخصی وراثتی سلطنت کی رسم بدجو خلافت راشدہ کے عہد مسعود میں مٹ چکی تھی مسلمانوں میں جاری ہو گئی اور اس رسم بد پر رضا مند ہو جانے کا خمیازہ مسلمانوں کو بارہا بھگتنا پڑا۔ وراثت ولیعہدی کی نامعقول و ناستودہ رسم نے بسا اوقات ایسے ایسے نالائق و ناہنجار لوگوں کو مسلمانوں کا حکمران بنایا جن کو معمولی بھلے آدمیوں کی مجلس میں بھی جگہ نہیں ملنی چاہیئے تھے‘ بے شک مسلمانوں کا کوئی ایک ہی سلطان یا خلیفہ یا حکمران ہونا چاہیئے لیکن وہ مسلمانوں کا بہترین شخص ہو اور مسلمان اس کو کثرت رائے یا اتفاق رائے سے منتخب کریں‘ کسی شخص کا کسی خیلفہ یا بادشاہ کے گھر پیدا ہونا ہرگز ہرگز اس امر کے لیے مستلزم نہیں ہے کہ وہ قابلیت حکومت بھی رکھتا ہو۔ اگر یہ وراثت والی رسم مسلمانوں کے اندر جاری نہ ہوتی اور امر سلطنت اسی طرح محفوظ رہتا جیسا کہ خلافت راشدہ کے زمانہ میں محفوظ رہا تو آج اسلامی حکومت اور مسلمانوں کی یہ حالت نہ ہوتی جو ہم اپنی آنکھوںسے دیکھ رہے ہیں ۔۔۔۔۔ لیکن مشیت ایزدی نے یہی چاہا اور قضاء و قدر کے نوشتے پورے ہو کر رہے‘ مسلمان اگر شروع ہی سے اس کے مخالف رہتے اور امر حکومت کو محفوظ رکھنے کے لیے کوشش و سعی میں کمی نہ کرتے تو اگرچہ اول اول ان کو بڑی بڑی قربانیاں اور زیادہ محنتیں برداشت کرنی پڑتیں‘ لیکن پھر کسی حکمران کو اس امرکی جرات نہ رہتی کہ وہ اپنے بعد اپنے بیٹے کو